کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1041
نے پوری کامیابی کے ساتھ کفر کے تمام بڑے بڑے گروہوں اور جتھوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکاکر جنگ کے لیے تیار کرلیا۔ اس کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق جنوب سے قریش ، کنانہ ، اورتہامہ میں آباد دوسرے حلیف قبائل نے مدینے کی جانب کوچ کیا ان سب کا سپہ سالارِ اعلیٰ ابو سفیان تھا۔ اور ان کی تعداد چار ہزار تھی۔ یہ لشکر مَرّالظہران پہنچا تو بنو سلیم بھی اس میں آ شامل ہوئے۔ ادھر اسی وقت مشرق کی طرف سے غطفانی قبائل فزارہ ، مرہ اور اَشجع نے کوچ کیا۔ فزارہ کا سپہ سالار عُیینہ بن حصن تھا۔ بنو مرہ کا حارث بن عوف اور بنو اشجع کا مسعر بن رخیلہ۔ انہیں کے ضمن میں بنو اسد اور دیگر قبائل کے بہت سے افراد بھی آئے تھے۔ ان سارے قبائل نے ایک مقررہ وقت اور مقررہ پروگرام کے مطابق مدینے کا رخ کیا تھا۔ اس لیے چند دن کے اندر اندر مدینے کے پاس دس ہزار سپاہ کا ایک زبردست لشکر جمع ہوگیا یہ اتنا بڑا لشکر تھا کہ غالباً مدینے کی پوری آبادی (عورتوں، بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں کو ملا کر بھی ) اس کے برابر نہ تھی۔ اگر حملہ آوروں کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر مدینے کی چہار دیواری تک اچانک پہنچ جاتا تو مسلمانوں کے لیے سخت خطرناک ثابت ہوتا۔ کچھ عجب نہیں کہ ان کی جڑ کٹ جاتی۔ اور ان کا مکمل صفایا ہوجاتا ، لیکن مدینے کی قیادت نہایت بیدار مغزاور چوکس قیادت تھی۔ اس کی انگلیاں ہمیشہ حالات کے نبض پر رہتی تھیں۔ اور وہ حالات کا تجزیہ کرکے آنے والے واقعات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ بھی لگا تی تھی اور ان سے نمٹنے کے لیے مناسب ترین قدم بھی اٹھاتی تھی۔ چنانچہ کفار کا لشکر ِ عظیم جوں ہی اپنی جگہ سے حرکت میں آیا مدینے کے مخبرین نے اپنی قیادت کو اس کی اطلاع فراہم کردی۔ اطلاع پاتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہائی کمان کی مجلسِ شوریٰ منعقد کی۔ اور دفاعی منصوبے پر صلاح مشورہ کیا۔ قائدین اہل شُوری نے غور وخوض کے بعد حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی ایک تجویز متفقہ طور پر منظور کی۔ یہ تجویز حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ان لفظوں میں پیش کی تھی کہ اے اللہ کے رسول ! فارس میں جب ہمارا محاصرہ کیا جاتا تھا تو ہم اپنے گرد خندق کھود لیتے تھے۔ یہ بڑی باحکمت دفاعی تجویز تھی۔ اہل عرب اس سے واقف نہ تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم