کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1036
چنانچہ غزوۂ بنونضیر سے فارغ ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی ان بد عہدوں کی تادیب کے لیے اٹھے بھی نہ تھے کہ ا ٓپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ بنی غَطْفَان کے دوقبیلے بنو محارب اور بنو ثعلبہ لڑائی کے لیے بدوؤں اور اعرابیوں کی نفری فراہم کررہے ہیں۔ اس خبر کے ملتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد پر یلغار کا فیصلہ کیا۔ اور صحرائے نجد میں دور تک گھُستے چلے گئے۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ ان سنگ دل بدوؤں پر خوف طاری ہوجائے۔ اور وہ دوبارہ مسلمانوں کے خلاف پہلے جیسی سنگین کارروائیوں کے اعادے کی جرأت نہ کریں۔ ادھر سرکش بدو ، جو لوٹ مارکی تیاریاں کررہے تھے مسلمانوں کی اس اچانک یلغار کی خبر سنتے ہی خوف زدہ ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اور پہاڑوں کی چوٹیوں میں جادبکے۔ مسلمانوں نے لٹیرے قبائل پر اپنا رعب ودبدبہ قائم کرنے کے بعد امن وامان کے ساتھ واپس مدینے کی راہ لی۔ اہل ِ سیر نے اس سلسلے میں ایک معیّن غزوے کا نام لیا ہے جو ربیع الآخر یا جمادی الاولیٰ ۴ ھ میں سر زمین ِنجد کے اندر پیش آیا تھا۔ اور وہ اسی غزوہ کو غزوۂ ذات الرقاع قرار دیتے ہیں۔ جہاں تک حقائق اور ثبوت کا تعلق ہے تو اس میں شبہ نہیں کہ ان ایام میں نجد کے اندر ایک غزوہ پیش آیا تھا۔ کیونکہ مدینے کے حالات ہی کچھ ایسے تھے۔ ابوسفیان نے غزوۂ احد سے واپسی کے وقت آئندہ سال میدان بدر میں جس غزوے کے لیے للکارا تھا ، اور جسے مسلمانوں نے منظور کر لیا تھا اب اس کا وقت قریب آرہا تھا۔ اور جنگی نقطۂ نظر سے یہ بات کسی طرح مناسب نہ تھی کہ بدوؤں اور اعراب کو ان کی سرکشی اور تمرد پر قائم چھو ڑ کر بدر جیسی زور دار جنگ میں جانے کے لیے مدینہ خالی کردیا جائے۔ بلکہ ضروری تھا کہ میدانِ بدر میں جس ہولناک جنگ کی توقع تھی اس کے لیے نکلنے سے پہلے ان بدوؤں کی شوکت پر ایسی ضرب لگائی جائے کہ انہیں مدینے کا رُخ کرنیکی جرأت نہ ہو۔ باقی رہی یہ بات کہ یہی غزوہ جو ربیع الآخر یا جمادی لاولیٰ۴ ھ میں پیش آیا تھا غزوہ ذات الرقاع تھا ہماری تحقیق کے مطابق صحیح نہیں۔ کیونکہ غزوۂ ذات الرقاع میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما موجود تھے۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جنگ خیبر سے صرف چند دن پہلے اسلام لائے تھے۔ اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ (مسلمان ہوکر یمن سے روانہ ہوئے تو ان کی کشتی ساحل حبشہ سے جالگی تھی۔ اور وہ حبشہ سے اس وقت واپس آئے تھے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم