کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1034
﴿مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللّٰهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ﴾ (۵۹: ۵)
’’تم نے کھجور کے جو درخت کاٹے یا جنہیں اپنے تنوں پر کھڑا رہنے دیا وہ سب اللہ ہی کے اذن سے تھا۔ اور ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ اللہ ان فاسقوں کورسواکرے ۔‘‘
بہرحال جب ان کا محاصرہ کیا گیا تو بنو قُریظہ ان سے الگ تھلگ رہے۔ عبداللہ بن اُبی نے بھی خیانت کی۔ اور ان کے حلیف غَطفان بھی مدد کو نہ آئے۔ غرض کوئی بھی انہیں مدد دینے یا ان کی مصیبت ٹالنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے واقعے کی مثال یوں بیان فرمائی :
﴿كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنْسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِنْكَ﴾(۵۹: ۱۶)
’’جیسے شیطان انسان سے کہتا ہے کفر کرو اورجب وہ کفر کر بیٹھتا ہے تو شیطان کہتا ہے میں تم سے بری ہوں ۔‘‘
محاصرے نے کچھ زیادہ طول نہیں پکڑا۔ بلکہ صرف چھ رات …یابقول بعض پندرہ رات ____جاری رہاکہ اس دوران اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ ان کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ وہ ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوگئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلوا بھیجا کہ ہم مدینے سے نکلنے کو تیار ہیں۔ آپ نے ان کی جلاوطنی کی پیش کش منظور فرمائی۔ اور یہ بھی منظور فرمالیا کہ وہ ہتھیار کے علاوہ باقی جتنا سازوسامان اونٹوں پر لادسکتے ہوں سب لے کر بال بچوں سمیت چلے جائیں۔
بنو نضیر نے اس منظوری کے بعد ہتھیار ڈال دیے اور اپنے ہاتھوں اپنے مکانات اجاڑ ڈالے ،تاکہ دروازے اور کھڑکیاں بھی لاد لے جائیں۔ بلکہ بعض بعض نے تو چھت کی کڑیاں اور دیواروں کی کھونٹیاں بھی لاد لیں۔ پھر عورتوں اور بچوں کو سوار کیا۔ اور چھ سو اونٹوں پر لد لداکر روانہ ہوگئے۔ بیشتر یہود اور ان کے اکابر مثلاًحُیی بن اخطب اور سلام بن ابی الحُقَیق نے خیبر کا رُخ کیا۔ ایک جماعت ملک شام روانہ ہوئی صرف دوآدمیوں، یعنی یامین بن عمرو اور ابو سعید بن وہب نے اسلام قبول کیا۔ لہٰذا ان کے مال کو ہاتھ نہیں لگایاگیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرط کے مطابق بنونضیر کے ہتھیار ، زمین ، گھر اور باغات اپنے قبضے میں لے لیے ، ہتھیار میں پچاس زِرہیں ، پچاس خُود اور تین سو چالیس تلواریں تھیں۔
بنونضیر کے یہ باغات ، زمین اور مکانات خالص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق تھا۔ آپ کو اختیار تھا