کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1030
مایوس ہوکر اس شخص نے بنو سلیم کو آواز دی۔ بنو سلیم کے تین قبیلوں عصیہ ، رعل اور ذکوان نے اس پر لبیک کہا۔ اور جھٹ آکر ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا محاصرہ کرلیا۔ جواباً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی لڑائی کی مگر سب کے سب شہید ہوگئے۔ صرف حضرت کعب بن زید بن نجار رضی اللہ عنہ زندہ بچے۔ انہیں شہد اء کے درمیان سے زخمی حالت میں اٹھا لایا گیا۔ اور وہ جنگ خندق تک حیات رہے۔ ان کے علاوہ مزید دوصحابہ حضرت عَمرو بن امیہ ضمری اور حضرت مُنذر بن عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہما اونٹ چرارہے تھے۔ انہوں نے جائے واردات پر چڑیوں کو منڈلاتے دیکھا تو سیدھے جائے واردات پر پہنچے۔ پھر حضرت منذر تو اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر مشرکین سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اور حضرت عمرو بن اُمیہ ضمری کو قید کرلیا گیا لیکن جب بتایا گیا کہ ان کا تعلق قبیلہ ٔ مُضَر سے ہے تو عامر نے ان کی پیشانی کے بال کٹواکر اپنی ماں کی طرف سے ۔جس پر ایک گردن آزاد کرنے کی نذر تھی۔ آزاد کردیا۔
حضرت عمرو بن اُمیہ ضمری رضی اللہ عنہ اس دردناک المیے کی خبر لے کر مدینہ پہنچے۔ سَتّرافاضل مسلمین کی شہادت کا المیہ جس نے جنگ اُحد کا چرکہ تازہ کردیا۔ اور وہ بھی اس فرق کے ساتھ کہ شہداء احد تو ایک کھُلی ہوئی اور دوبدو جنگ میں مارے گئے تھے ، مگر یہ بیچا رے ایک شرمناک غداری کی نذر ہوگئے۔
حضرت عمرو بن اُمیہ ضمری واپسی میں وادی قناۃ کے سرے پر واقع مقام قرقرہ پہنچے تو ایک درخت کے سائے میں اتر پڑے وہیں بنو کلاب کے دوآدمی بھی آکر اتررہے۔ جب وہ دونوں بے خبر سو گئے تو حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کا صفایا کردیا۔ ان کا خیال تھا کہ اپنے ساتھیوں کا بدلہ لے رہے ہیں ، حالانکہ ان دونوں کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عہد تھا۔ مگر حضرت عَمرو جانتے نہ تھے۔ چنانچہ جب مدینہ آکر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اس کارروائی کی خبر دی تو آپ نے فرمایا کہ تم نے ایسے دوآدمیوں کو قتل کیا ہے جن کی دیت مجھے لازماً ادا کرنی ہے۔ اس کے بعد آپ مسلمان اور ان کے حُلفاء یہود سے دیت جمع کرنے مشغول ہوگئے۔[1] اور یہی غزوۂ بنی نضیر کا سبب بنا۔ جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معونہ اور رجیع کے ان المناک واقعات سے جوچند ہی دن آگے پیچھے پیش آئے تھے۔[2] اس قدر رنج پہنچا ، اور آپ اس قدر غمگین ودلفگار ہوئے [3]کہ جن قوموں اور