کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1019
سے باز رکھنے اور اس طرح دوبارہ مسلح ٹکراؤ سے بچنے کے لیے پروپیگنڈے کا ایک جوابی اعصابی حملہ کیا۔ جس کی صورت یہ ہوئی کہ ابو سفیان کے پاس سے قبیلہ عبد القیس کا ایک قافلہ گزرا ، ابو سفیان نے کہا: کیا آپ لوگ میرا ایک پیغام محمد کو پہنچادیں گے ؟ میراوعدہ ہے کہ اس کے بدلے جب آپ لوگ مکہ آئیں گے تو عُکاظ کے بازار میں آپ لوگوں کو اتنی کشمش دوں گا جتنی آپ کی یہ اونٹنی اٹھا سکے گی۔ ان لوگوں نے کہا : جی ہاں ! ابو سفیان نے کہا : محمد کو یہ خبر پہنچادیں کہ ہم نے ان کی اور ان کے رفقاء کی جڑ ختم کردینے کے لیے دوبارہ پلٹ کر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے بعد جب یہ قافلہ حَمراء الاسد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس سے گزرا تو ان سے ابو سفیان کا پیغام کہہ سنایا۔ اور کہا کہ لوگ تمہارے خلاف جمع ہیں۔ ان سے ڈرو ، مگر ان کی باتیں سن کر مسلمانوں کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیا۔ اور انہوں نے کہا: حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔ اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے۔ (اس ایمانی قوت کی بدولت ) وہ لوگ اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹے۔ انہیں کسی بُرائی نے نہ چھوا۔ اور انہوں نے اللہ کی رضامندی کی پیروی کی اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتوار کے دن حمراء الاسد تشریف لے گئے تھے۔ دوشنبہ ، منگل اور بدھ یعنی ۹/۱۰/۱۱/شوال ۳ھ کو وہیں مقیم رہے اس کے بعد مدینہ واپس آئے۔ مدینہ واپسی سے پہلے ابو عَزہ جمحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفت میں آگیا۔ یہ وہی شخص ہے جسے بدر میں گرفتار کیے جانے کے بعد اس کے فقر اور لڑکیوں کی کثرت کے سبب اس شرط پر بلا عوض چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کسی کا تعاون نہیں کرے گا۔ لیکن اس شخص نے وعدہ خلافی اور عہد شکنی کی۔ اور اپنے اشعار کے ذریعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف لوگوں کے جذبات کو برانگیختہ کیا ۔ جس کا ذکر پچھلے صفحات میں آچکا ہے۔ پھر مسلمانوں سے لڑنے کے لیے خود بھی جنگ اُحد میں آیا۔ جب یہ گرفتار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو کہنے لگا : محمد ؐ! میری لغزش سے درگزر کردو۔ مجھ پر احسان کردو اور میری بچیوں کی خاطر مجھے چھوڑ دو۔ میں عہد کرتا ہوں کہ اب دوبارہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اب یہ نہیں ہوسکتا کہ تم مکے جاکر اپنے رخسار پر ہاتھ پھیرو، اور کہو کہ میں نے محمد کو دومرتبہ دھوکا دیا۔ مومن ایک سوراخ سے دومرتبہ نہیں ڈسا جاتا ہے۔ اس کے بعد حضرت زبیر