کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1012
(کیونکہ اسلام لانے کے بعد ابھی کسی نماز کا وقت آیا ہی نہ تھا کہ شہید ہوگئے )
ان ہی زخمیوں میں قُزمان بھی ملا۔ اس نے جنگ میں خوب خوب داد ِ شجاعت دی تھی۔ اور تنہا سات یا آٹھ مشرکین کو تہ تیغ کیا تھا۔ وہ جب ملا تو زخموں سے چور تھا ، لوگ اسے اٹھا کر بنو ظفر کے محلے میں لے گئے۔ اور مسلمانوں نے خوشخبری سنائی۔ کہنے لگا : واللہ! میری جنگ تو محض اپنی قوم کے ناموس کے لیے تھی۔ اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں لڑائی ہی نہ کرتا۔ اس کے بعد جب اس کے زخموں نے شدت اختیار کی تو اس نے اپنے آپ کو ذبح کر کے خودکشی کرلی۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا جب بھی ذکر کیا جاتا تھا تو فرماتے تھے کہ وہ جہنمی ہے۔[1] (اور اس واقعے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی پر مہر تصدیق ثبت کردی) حقیقت یہ ہے کہ اِعلائِ کلمۃُ اللہ کے بجائے وطنیت یا کسی بھی دوسری راہ میں لڑنے والوں کا انجام یہی ہے۔ چاہے وہ اسلام کے جھنڈے تلے بلکہ رسول اور صحابہ کے لشکر ہی میں شریک ہوکر کیوں نہ لڑرہے ہوں۔
اس کے بالکل بر عکس مقتولین میں بنو ثعلبہ کا ایک یہودی تھا۔ اس نے اس وقت جبکہ جنگ کے بادل منڈلارہے تھے ، اپنی قوم سے کہا : اے جماعت یہود ! اللہ کی قسم تم جانتے ہو کہ محمد کی مدد تم پر فرض ہے۔ یہود نے کہا : مگر آج سَبت (سنیچر ) کا دن ہے۔ اس نے کہا: تمہارے لیے کوئی سبت نہیں ، پھر اس نے اپنی تلوار لی۔ ساز وسامان اٹھا یا۔ اور بولا: اگر میں مارا جاؤں تو میرا مال محمد( صلی اللہ علیہ وسلم)کے لیے ہے۔ وہ اس میں جو چاہیں گے کریں گے۔ اس کے بعد میدانِ جنگ میں گیا اور لڑتے بھِڑتے مارا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مُخیریق بہترین یہودی تھا۔[2]
اس موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی شہداء کا معائنہ فرمایا۔ اور فرمایا کہ میں ان لوگوں کے حق میں گواہ رہوں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں زخمی کیا جاتا ہے۔ اسے اللہ قیامت کے روز اس حالت میں اٹھائے گا کہ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہو گا۔ رنگ تو خون ہی کا ہوگا لیکن خوشبو مشک کی خوشبو ہوگی۔[3]
کچھ صحابہ رضی اللہ عنہ نے اپنے شہداء کو مدینہ منتقل کرلیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ اپنے شہیدوں کو واپس لاکر ان کی شہادت گاہوں میں دفن کریں، نیز شہداء کے ہتھیار اور پوستین کے لباس اتار لیے جائیں ،پھر انہیں