کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1011
شہیدوں اور زخمیوں کی خبر گیری: قریش کی واپسی کے بعد مسلمان اپنے شہیدوں اور زخمیوں کی کھوج خبر لینے کے لیے فارغ ہوگئے۔ حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ احد کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا کہ میں سعد بن الربیع کو تلاش کروں اور فرمایا کہ اگر وہ دکھائی پڑجائیں تو انہیں میرا سلام کہنا۔ اور یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت کررہے ہیں کہ تم اپنے آپ کو کیسا پارہے ہو؟ حضرت زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مقتولین کے درمیان چکر لگاتے ہوئے ان کے پاس پہنچا تو ان کی آخری سانس آجارہی تھی۔ انہیں نیزے ، تلوار اور تیر کے ستر سے زیادہ زخم آئے تھے۔ میں نے کہا: اے سعد ! اللہ کے رسول آپ کو سلام کہتے ہیں اور دریافت فرمارہے ہیں کہ مجھے بتاؤ اپنے آپ کو کیسا پارہے ہو ؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلا م۔ آپ سے عرض کرو کہ یارسول اللہ ! جنت کی خوشبو پارہا ہوں۔ اور میری قوم انصار سے کہو کہ اگر تم میں سے ایک آنکھ بھی ہلتی رہی ، اور دشمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گیا تو تمہارے لیے اللہ کے نزدیک کوئی عذر نہ ہوگا۔ اور اسی وقت ان کی روح پرواز کر گئی۔[1] لوگوں نے زخمیوں میں اُصیرم کو بھی پایا۔ جن کا نام عمرو بن ثابت تھا۔ ان میں تھوڑی سی رمق باقی تھی۔ اس سے قبل انہیں اسلام کی دعوت دی جاتی تھی مگر وہ قبول نہیں کرتے تھے۔ اس لیے لوگوں نے (حیرت سے ) کہا: یہ اصیرم کیسے آیا ہے ؟ اسے تو ہم نے اس حالت میں چھوڑا تھا کہ وہ اس دین کا انکاری تھا۔ چنانچہ ان سے پوچھا گیا کہ تمہیں یہاں کیا چیز لے آئی ؟ قوم کی حمایت کا جوش ؟ یا اسلام کی رغبت ؟ انہوں نے کہا : اسلام کی رغبت۔ درحقیقت میں اللہ اور اس کے رسول ؐ پر ایمان لے آیا۔ اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت میں شریک ِ جنگ ہوا۔ یہاں تک کہ اب اس حالت سے دوچار ہوں جو آپ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ اور اسی وقت ان کا انتقال ہوگیا۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جنتیوں میں سے ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حالانکہ اس نے اللہ کے لیے ایک وقت کی بھی نماز نہیں پڑھی تھی۔[2]