کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1004
قدم آگے بڑھایا اور صحابہ کرام کی جانب تشریف لائے۔ سب سے پہلے حضرت کعب بن مالک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا۔ خوشی سے چیخ پڑے کہ مسلمانو! خوش ہوجاؤ۔ یہ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ خاموش رہو ۔ تاکہ مشرکین کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی اور مقام موجودگی کا پتہ نہ لگ سکے ۔ مگر ان کی آواز مسلمانوں کے کان تک پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ مسلمان آپ کی پناہ میں آنا شروع ہوگئے۔ اور رفتہ رفتہ تقریباً تیس صحابہ جمع ہوگئے۔ جب اتنی تعداد جمع ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کی گھاٹی، یعنی کیمپ کی طرف ہٹنا شروع کیا مگر چونکہ اس واپسی کے معنی یہ تھے کہ مشرکین نے مسلمانوں کو نرغے میں لینے کی جو کارروائی کی تھی وہ بے نتیجہ رہ جائے۔ اس لیے مشرکین نے اس واپسی کو ناکام بنانے کے لیے اپنے تابڑ توڑحملے جاری رکھے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حملہ آوروں کا ہجوم چیر کر راستہ بناہی لیا۔ اور شیرا ن ِ اسلام کی شجاعت وشہ زوری کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔ چنانچہ اسی اثناء میں مشرکین کا ایک اڑیل شہسوار عثمان بن عبداللہ بن مغیرہ یہ کہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب بڑھا کہ یا تو میں رہوں گا یا وہ رہے گا۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی دودوہاتھ کرنے کے لیے ٹھہر گئے مگر مقابلے کی نوبت نہ آئی۔ کیونکہ اس کا گھوڑا ایک گڑھے میں گر گیا۔ اور اتنے میں حارث بن صمہ نے اس کے پاس پہنچ کر اسے للکارا۔ اور اس کے پاؤں پر اس زور کی تلوار ماری کہ وہیں بٹھادیا ، پھر اس کاکام تمام کرکے اس کا ہتھیار لے لیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اگئے مگر اتنے میں مکی فوج کے ایک دوسرے سوار عبد اللہ بن جابر نے پلٹ کر حضرت حارثہ بن صمہ پر حملہ کردیا اور ان کے کندھے پر تلوار مار کر زخمی کردیا۔ مگر مسلمانوں نے لپک کر انہیں اٹھا لیا۔ اور اُدھر خطرات سے کھیلنے والے مرد مجاہد حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ ، جنہوں نے آج سرخ پٹی باندھ رکھی تھی ، عبداللہ بن جابر پر ٹوٹ پڑے اور اسے ایسی تلوارماری کہ اس کا سر اڑگیا۔ کرشمۂ قدرت دیکھئے کہ اسی خونریز مار دھاڑ کے دوران مسلمانوں کو نیند کی چھپکیاں بھی آرہی تھیں اور جیسا کہ قرآن نے بتلایا ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے امن وطمانیت تھی۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں بھی ان لوگوں میں تھا جن پر اُحد کے روز نیند چھارہی تھی ، یہاں تک کہ میرے ہاتھ سے کئی بار تلوار گرگئی۔حالت یہ تھی کہ وہ گرتی تھی اور میں پکڑتا تھا ،پھر گرتی تھی اور پھر پکڑتا تھا۔[1]