کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 87
اور میرے رب کے کلمات کو فناء نہ آتی۔جیسا کہ اللہ کے علم کو فناء نہیں ،اور جس کا کلام فناء ہو جائے اس کو آفات آلیتی ہیں اور اس پر سکوت جاری ہوجاتا ہے پس جب ہمارے رب پر جائز نہ ہوا تو یہ درست ثابت ہوا کہ وہ ہمیشہ سے متکلم ہے کیو نکہ اگر وہ متکلم نہ ہوتا تو واجب تھا کہ اس پر سکوت اور آفات ہوتیں ۔ہمارا رب جھمیہ کے قول سے بہت بزرگ وبرتر ہے۔
۹: جھمیہ کا گمان بھی اسی طرح ہے جیسا کہ نصاری کا گمان ہے کیوں کہ نصاری کا گمان ہے کہ اللہ کا کلمہ مریم علیہ السلام کے پیٹ میں سما گیا،جھمیہ نے اس پر اضافہ کیا اور گمان کیا کہ اللہ کا کلام ایک درخت میں اتر آیا،اور درخت نے اس کو اپنے اندر سمولیا اس سے ان کو یہ لازم آتا ہے کہ درخت نے وہ کلام کیا اور مخلوقات میں سے ایک مخلوق نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کی اور درخت نے کہا:﴿ إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي ﴾(طہ:۱۱۴)اگر درخت میں اللہ کا کلام پیدا کیا گیا تو مخلوق نے یہ کہا:اے موسیٰ﴿إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي ﴾ (طہ:۱۱۴)’’بلاشبہ میں ہی الہ ہوں میرے سوا کوئی الہ نہیں لہذا میری ہی عبادت کرو‘‘
اللہ عزوجل کا فرمان ہے :
[1]
[1] ہ سکوت جو بمعنی عدم کلام کے ہو ۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے اورجب چاہتا ہے کلام نہیں کرتا ۔حدیث میں ہے :ما احل اللہ فی کتابہ فھوحلال،وما حرم فھو حرام،وما سکت عنہ فھو عافیۃفا قبلوا من اللہ العافیۃفان اللہ لم یکن نسیا۔ثم تلاھذہ الایۃ(وما کان ربک نسیا)(المستدرک :۲؍۴۰۶)
دوسری حدیث میں ہے :وما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ۔(ترمذی:۱۷۲۶)
ایک حدیث میں ہے :وسکت عن اشیاء رحمۃ غیر نسیان فلاتبحثوا عنھا۔(السنن الکبری للبھقی:۱۰؍۲۱)
ابن تیمہ فرماتے ہیں :سنت اور اجماع سے ثابت ہے کہ اللہ سکوت سے موصوف کیا جاتا ہے۔(مجموع الفتاوی:۶؍۱۷۹)
ابو اسماعیل انصاری اور امام الائمہ ابن خزیمہ سے بھی اس صفت کا اثبات ثابت ہے۔(انتھی ملخصامن تعلیقات العصیمی)