کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 74
لیے یہ جائز کیوں کر نہ ہوگاکہ وہ کہے : ﴿لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ﴾سے اللہ تعالیٰ نے یہ مراد لیا ہے کہ آنکھوں کا غیر اس کا ادراک نہیں کرسکتا ۔یہ مراد نہیں لیا کہ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں ۔ان دونوں باتوں کے فرق پر معتزلہ قدرت نہیں پائیں گے۔ ۶۔ایک اور دلیل جو اللہ کے دیدار پر دلالت کرتی ہے وہ موسی علیہ السلام کا یہ قول ہے :﴿ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ﴾ (الاعراف :۱۴۳)اور یہ تو جائز نہیں ناکہ اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کو جلباب نبوت پہنایا ہو اور ان کو اس چیزسے معصوم رکھا ہو جس سے وہ نبیوں کو معصوم رکھتا ہے اور وہ اس چیز کا سوال کریں جو ان کے رب کے لیے مستعمل ہو ۔جب یہ موسی علیہ السلام پر جائز نہ ہوا تو اس سے ہمیں پتہ چلا کہ آپ نے اپنے رب سے کسی ناممکن کا سوال نہیں کیا ۔اور دیدار ہمارے رب پر جائز ہے۔اگر دیدار محال ہوتا جیسا معتزلہ کا گمان ہے اور موسی علیہ السلام کو اس کی محالیت کا علم نہ ہوا اور ان معتزلہ کو ہو گیاتو اس صورت میں تو یہ اپنے قول کے مطابق اللہ کے نبی موسی علیہ السلام سے زیادہ عالم ہو۔اور یہ ایسی بات ہے جس کا کوئی مسلمان بھی دعوی نہیں کرتا ۔ ۷۔ ا گر کوئی کہے کہ کیا تم آج ظھار کا حکم نہیں جانتے جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظھار کا حکم اس کے نازل ہونے سے پہلے نہیں جانتے تھے؟ تو کہا جائے گا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم تب ظھار کا حکم نہیں جانتے تھے جب تک اللہ نے ظھار کا حکم لازم نہیں کیا تھا۔ جب اس نے لوگوں پر ظھار کا حکم لازم کیا تو لوگوں سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم دیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بندگانِ رب کو معلوم کروایا۔کوئی ایسا وقت نہیں آیا کہ آپ کو وہ حکم لازم ہو اور آ پ کو علم نہ ہو۔ جب کہ تمھاراگمان یہ ہے کہ موسی علیہ السلام کو لازم تھا کہ ان کو دیدار کا حکم معلوم ہو کہ وہ اللہ کے حق میں محال ہے۔ اور جب موسیٰ علیہ اسلام نے یہ علم لازم ہونے کے وقت نہ جانا اورتم نے جان لیا (جیسا کہ تمھارا گمان ہے) تو اس سے تمہیں یہ لازم آیا کہ موسیٰ علیہ السلام کو جو علم لازم تھااس کا انھیں اتنا علم نہ تھا جتنا کہ تمھیں اس کا علم ہے جس کا علم تم پر لازم ہے۔ ۸۔ آنکھوں سے دیدار الٰہی کے جواز پر دلالت کرنے والی ایک آیت یہ بھی ہے: