کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 73
نے بھی’’ الی‘‘ ذکر نہی کیا کیوں کہ اس نے بھی نظر کو انتظار کے معنی میں ذکر کیا ہے جب اللہ نے ﴿ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ﴾ کہاتوہم نے جان لیا کہ انتظار نہیں دیدار مراد ہے۔ ۲۔چہرے کے ساتھ نظر کوذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے چہرے کی آنکھوں سے دیکھنا مراد لیا ہے۔جیسا کہ فرمایا:﴿ قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا﴾۔(البقرۃ:۱۴۴)ہم تمہارے چہرے کابار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں لہذا آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جو آپ کوپسند ہے ۔چہرے کو ذکر کیا اور مراد آسمان کی طرف آنکھوں کے باربار پلٹنے کو لیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرشتے کے نزول کا انتظار فرماتے تھے کہ وہ بیت المقدس سے آپ کو بیت اللہ کی طرف پھیر دے گا ۔ ۳۔اگر کوئی یہ کہے کہ تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ الی ربھاناظرۃ سے مراد اپنے رب کے ثواب کی طرف نظر ہے؟توکہا جائے گا:اللہ کا ثواب غیر اللہ ہے ۔جب کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے :اپنے رب کو دیکھتے ہوں گے ۔یہ نہیں کہا کہ اس کے غیر کو دیکھتے ہوں گے اور قرآن اپنے ظاہر پر ہی ہے ،ہمارے لیے اس کی گنجائش نہیں کہ ہم اس کوظاہر سے پھیریں ۔ظاہر سے پھیرنے کی کوئی دلیل ہو تو درست وگرنہ قرآن ظاہر پر ہی ہے ۔کیا آپ دیکھتے نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میرے لیے نماز پڑھو اور میری عبادت کروتو کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کہے :اللہ نے اس کلام سے ظاہری معنی کا غیر مراد لیا ہے اسی طرح جب الی ربھا ناظرۃکہا تو ہمارے لیے جائز نہ ہوا کہ ہم بغیر دلیل کے قرآن کو اس کے ظاہر سے پھیر دیں ۔ ۵:مزید برآں معتزلہ سے کہا جائے گا: اگر تمہارے لیے یہ گمان کرنا جائز ہے کہ اللہ نے ﴿ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ﴾ سے مراد غیر اللہ کی طرف دیکھنا لیا ہے تو تمہارے علاوہ کسی کے