کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 72
چہرے کے ساتھ بیان کی جائے تو اس کا معنی نظرِ انتظار نہیں ہوتا جو کہ دل سے ہوتا ہے یوں بھی جنت میں انتظار نہیں ہوگا،کیونکہ انتظار سے عیش مکدر ہوتی ہے ،جب کہ اہل جنت کے لیے ایسی عیش سلیم اور نعمت مقیم ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہے اور نہ کسی کان نے سنی ہے ۔[1]اس لیے یہ جائز نہیں کہ وہ جنت میں انتظار کرنے والے ہوں ،ان کے دلوں میں جب کسی چیز کا خیال گزرے تو ساتھ ہی وہ چیز حاضر ہوگی ۔ یہ بھی جائز نہیں کہ نظر کرم اللہ نے مراد لی ہو ،کیونکہ یہ جائز نہیں کہ مخلوق اپنے خالق پر کرم کرے۔پس پہلی تینوں قسم کی نظر کا معنی یہاں غلط ہے۔چوتھا ہی درست ہے ۔اور یہی اس آیت کریمہ کا معنی ہے﴿ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ﴾ ۔(القیامۃ:۲۳)کہ وہ آنکھ اپنے رب کو دیکھتی ہوگی۔ معتزلہ کا یہ کہنا ہے کہ اس آیت میں اللہ نے نظرسے انتظار مرادلیا اس بات کارد اس سے بھی ہوتا ہے کہ اللہ نے ﴿ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ﴾الی ربھا ناظرۃ کہا ہے اور وہ نظر جس کا معنی انتظار ہو وہ ’’الی‘‘کے صلہ سے نہیں آتی،کیونکہ عرب کے ہاں نظر انتظار ’’الی ‘‘سے ذکر کرنے کاجواز نہیں ۔دیکھتے نہیں کہ جب اللہ نے فرمایا :﴿ مَا يَنْظُرُونَ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً ﴾ (یسین:۴۹)تو ’’الی‘‘ذکر نہیں کیا،کیونکہ یہاں نظر کا معنی انتظار ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ملکہ بلقیس کی طرف سے ذکر کیا کہ اس نے کہا :﴿ فَنَاظِرَةٌ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ ﴾ ۔(النمل:۳۵)پس میں انتظار کرتی ہوں کہ قاصد کیا لے کر لوٹتے ہیں ؟چونکہ ملکہ بلقیس نے نظر سے مراد انتظار لیا تھا اس لیے ’’الی ‘‘ذکر نہ کیا ،امراء القیس شعر میں کہتا ہے: فانکما ان تنظرانی ساعۃ من الدھر تنفعنی لدی ام جندب اگر تم دونوں زمانے کی گھڑی انتظار کرو تو یہ مجھے ام جندب کے ہاں نفع دے گا۔ [2] اس
[1] بخاری : ۳۲۰۴، مسلم : ۱۸۹ [2] دیوان امرء القیس ص:۶۴