کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 63
گناہ گاروں کے لیے جنت کی امید رکھتے ہیں ا ور ان کے متعلق ڈرتے ہیں کہ مبادا و ہ دوزخ میں عذاب دیے جائیں ۔ [1] ۳۲۔ ہم کہتے ہیں :بلاشبہ اللہ عزوجل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کی بدولت ایک قوم کو دوزخ سے ان کے جل جانے کے بعد نکالے گا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایت کی
[1] امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا:[۶۰]اورنہ ہم قبلہ والوں میں سے کسی ایک کے جنت میں لے جانے والے عمل کو دیکھ کر اس کے جنتی یا(جہنم میں لے جانے والے عمل کو دیکھ اس) جہنمی ہونے کی گواہی دیں گے[اس قاعدے سے وہ لوگ مستثنی ہیں جن کے متعلق گواہی قرآن و حدیث میں موجود ہے مثلا تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے بارے میں قرآن و حدیث میں بے شمار دلائل ہیں کہ وہ جنتی ہیں ہم ان کے جنتی ہونے کی گواہی دیتے ہیں اسی طرح ابولہب ،ابوجہل وغیرہما کے جہنمی ہونے کے متعلق قرآن وحدیث میں دلائل موجود ہیں اس لیے ہم بھی ان کے جہنمی ہونے کی گواہی دیتے ہیں ۔) ہم نیک کے لیے امید رکھتے ہیں اور اس پر ڈرتے بھی ہیں اور اسی طرح گناہ گار پر ڈرتے ہیں اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید بھی رکھتے ہیں ۔ [۶۱]جو شخص اللہ تعالیٰ کو ایسے گناہ کی حالت میں ملے جس کے بدلے اس کے لیے جہنم واجب ہو ،وہ اپنے اس گناہ سے توبہ کرنے والا ہے اور اصرار نہیں کرنے والا تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے اورگناہوں کومٹادیتا ہے۔ [اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :اور وہ تو وہ ذات ہے جو اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور ان کی برائیوں کو معاف کرتا ہے۔(الشوری:۲۵)] [۶۲]جو اللہ تعالیٰ کو اس حالت میں ملا کہ اس کو اس کے گناہ کے بدلے دنیا میں ہی حد لگا دی گئی ،تو یہ حد اس کے لیے کفارہ ہے ۔جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث آئی ہے۔ [آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص گناہ کرتا ہے اور اس پر حد قائم کر دی گئی تو یہ اس کے لیے کفارہ ہے۔(حسن۔مسند احمد:ج۵ص۲۱۴) [۶۳] اور جو بغیر توبہ کے اور اپنے گناہ پر اصرار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو ملا توگناہ کے بدلے سزا کا مستحق ہے ۔اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔اگر وہ چاہے تواس کو عذاب دے گا اور چاہے تو اس کو معاف کر دے۔ [۶۴]اور جو شخص اللہ تعالیٰ کافر ہونے کی حالت میں ملا ،اللہ تعالیٰ اس کو عذاب دے گا اور اس کو معاف نہیں کرے گا ۔ [۶۵]وہ شخص جس نے زنا کیا اگر وہ شادی شدہ ہے ،جب وہ اعتراف کر لے یا اس کے خلاف دلیل قائم ہو جائے تو اس کو رجم کرنا حق ہے اور واجب ہے اور یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنھم نے بھی رجم کیا ہے۔ (مجموعہ مقالات اصول السنہ ص:۵۰۔۵۲)]