کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 62
﴿كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ ﴾ ۔(المطففین:۱۵) ’’ہر گز نہیں بے شک وہ اس دن اپنے رب سے محجوب ہوں گے۔‘‘ ۲۶۔.... بلا شبہ موسی علیہ السلام نے دنیا میں اللہ تعالیٰ سے اس کے دیدار کا سوال کیا تو اللہ پہاڑ کے لیے متجلی ہوا ،اس کو ریزہ ریزہ کردیا ۔یوں موسی علیہ السلام کو آگاہ کیا کہ وہ دنیا میں اس کا دیدار نہیں کریں گے۔ [1] ۲۷۔....خوارج کے عقیدے کے بر خلاف ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہم اہل قبلہ میں سے کسی کو بھی کسی گناہ کے ارتکاب کے سبب کافر قرار نہیں دیتے مثلا :زنا،چوری اور شراب نوشی وغیرہ ۔خوارج سمجھتے ہیں کہ یہ گناہ کرنے والے لوگ کافر ہیں۔ [2] ۲۸۔.... ہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ جو ان کبائر مثلا:زنا،چو ری وغیرہ میں سے کوئی کبیرہ گناہ ،گناہ کو حلال جانتے ہوئے اور اس کی حرمت کا اعتقاد نہ رکھتے ہوئے کرے تو وہ کافر ہے ۔ ۲۹۔.... ہمارا موقف ہے کہ اسلام ایمان سے اوسع ہے اور ہر اسلام ایمان نہیں ۔[3] ۳۰۔.... ہمارا دین ہے کہ اللہ عز وجل اپنی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان سے دلوں کو پھیرتاہے ۔ [4] اور جیسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ہم بغیر تکییف کے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ عز وجل آسمانوں کو ایک انگلی پر اور زمینوں کو ایک انگلی پر رکھے گا ۔ [5] ۳۱۔.... ہم اہل توحید اور متمسکین بالایمان میں سے سوائے ان لوگوں کے جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی گواہی دی ہے کسی کو بھی جنت کا باسی قرار نہیں دیتے ۔
[1] ہمارے نبی سیدنامحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنا ثابت نہیں ہے اس پر قدر تفصیل سے بحث ہم نے مجموعہ مقالات اصول السنہ لامام احمد بن حنبل ص:۳۷۔۳۹میں کر دی ہے۔ [2] اہل السنہ جب یہ عبارت ذکر کرتے ہیں تو اس سے ان کی یہ مراد نہیں ہوتی کہ کوئی عمل بھی ایمان کا ناقص نہیں ۔اہل السنہ کی اس عبارت سے مراد وہ گناہ ہیں جو نواقض اسلام میں سے نہیں ۔ [3] دیکھیے شرح عقیدہ طحاویہ ص:۲۳۸۔ ۲۵۰ [4] صحیح مسلم:۲۶۵۴ [5] صحیح بخاری:۴۸۱۱،صحیح مسلم:۲۷۸۶