کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 61
اور جانتے ہیں کہ جو ہم سے چوک گیا ہے وہ ہمیں پہنچنے والانہ تھا اور جو ہمیں پہنچا وہ ہم سے چوکنے والا نہ تھا ۔[1]اس میں بھی کچھ شک نہیں بندگان باری اس کے سوا اپنے لیے کسی بھی طرح کے نفع و نقصان کا مالک نہیں ۔جیسا کہ اس نے فرمایا : ﴿ قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ﴾ (الاعراف:۱۸۸) [2] ’’کہہ دیجیے :میں اپنے نفس کے لیے کسی بھی نفع اور نقصان کا مالک نہیں سوا ئے اس کے جو اللہ چاہے ۔‘‘ ۲۴۔.... ہم اپنے معاملات اللہ کے سپرد کرتے ہیں اور ہر لمحہ اس کی طرف اپنے احتیاج و فقر کا اثبات کرتے ہیں ۔ ۲۵۔.... ہم یہ کہتے ہیں کہ بلاشبہ اللہ کا کلام غیر مخلوق ہے اور جو خلق قرآن کا قائل ہے وہ کافر ہے۔ [3] اور ہمارا دین ہے کہ اللہ آخرت میں آنکھوں سے یوں دیکھا جائے گا جیسے چودھویں کا چاند دیکھا جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کو صرف مومنین ہی دیکھ پائیں گے جیسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔[4] جب مومنین جنت میں اس کا دیدار کریں گے تو کافر اس کے دیدار سے محجوب ہوں گے جیسا کہ اس کا فرمان ہے :
[1] (منسوب نہیں کیانیز دیکھیں ہماری کتاب شرح اصول السنہ للحمیدی ص:۳۷۔۳۸]  ترمذی:۲۵۱۸ ،احمد : ۲۹۳، ۳۰۳، ۳۰۷،ابن السنی:۴۲۵ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے نور الاقتباس فی شرح وصیۃ ابن عباس لابن رجب الحنبلی ۔ [2] دیکھیے شرح عقیدہ طحاویہ ص:۱۰۵، ۱۰۸، ۲۴۸، ۲۹۰ [3] تفصیل کے لئے دیکھیے (التوحید لابن مندہ :۱۳۶،الاسماء والصفات للبیھقی :ج۱ص۲۹۹،الشریعہ للآجری ص:۷۵نیز دیکھیں ہماری کتابیں :شرح رسالہ نجاتیہ ص:۴۱۔۴۸،شرح اصول السنۃ للحمیدی ص:۵۹۔۶۴ اور مترجم عقیدۃ السلف و اصحاب الحدیث للصابونی [4] دیکھیے شرح عقیدہ طحاویہ ص:۱۴۵، ۱۶۳، ۱۸۱، ۲۰۴