کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 57
۳۔.... ہمارے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتب کا، اس کے رسولوں کا، جو کچھ وہ رسول، اللہ کے پاس سے لے کر آئے اس کا، اور ثقات نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے اس کا اقرار کرتے ہیں ۔ [1]ان میں سے کسی چیز کو بھی ہم ترک نہیں کرتے۔ [2] ۴۔.... ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ بلاشبہ اللہ عزوجل ایک الہٰ ہے۔ اس کے سوا کوئی بھی معبود برحق نہیں ۔ یکتا و بے نیاز ہے۔ نہ تو اس کی بیوی ہے نہ ہی اولاد ، بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔ [3] ۵۔.... اور بلاشبہ جنت و دوزح برحق ہیں ۔ [4] ۶۔.... قیامت یقیناً آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں ۔ ۷۔.... اور یقینااللہ تعالیٰ جو قبروں میں ہیں ان کو اٹھانے والے ہیں ۔ [5] ۸۔ ....ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستو ی ہے۔ [6] جیسا کہ اس نے فرمایا : ﴿ الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى ﴾ [طہ: ۵] ’’ رحمان جو عرش پر مستوی ہوا۔‘‘
[1] یعنی عقیدہ ضعیف اور موضوع روایات سے ثابت نہیں ہوتا۔ رہی اخبار احاد تو ان کو رد کرناجب ان کی سند صحیح ہو، خواہ وہ اصول میں ہوں یا فروع میں ، گمراہی کے راستوں میں سے ایک راستہ ہے [تفصیل کے لیے دیکھیے ہماری کتاب تخریج و تحقیق کے اصول وضوابط] [2] دیکھیے شرح عقیدہ طحاویہ ص:۴۰۳ [3] دیکھیے شرح عقیدہ طحاویہ ص:۱۵۔ ۴۲، ۱۱۰۔ ۱۳۵ [4] دیکھیے شرح عقیدہ طحاویہ ص:۴۸۴۔ ۴۹۹ [5] دیکھیے شرح عقیدہ طحاویہ ص:۴۶۳۔ ۴۸۴ [6] بعض دیگر نسخ میں یہاں ایک ایسی عبارت کا اضافہ ہے جو اہل السنہ کے موقف سے موافقت نہیں رکھتی۔ وہ عبارت در اصل ا مام غزالی اشعری صوفی کی ہے۔ اس کے متعلق ہم مقدمہ میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں ۔