کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 56
باب 2 اہل السنہ والحق کے قول کا بیان ۱۔....اگر کوئی کہنے والا کہے: تم نے معتزلہ، قدریہ، جہمیہ،حرور یہ،روافض اور مرجئہ کے قول کا تو انکار کر دیاہے، ہمیں اپنے موقف سے تو آگاہ کرو جس کے تم قائل ہو۔ ۲۔.... تو اس سے کہا جائے گا: ہمارا موقف جس کے ہم قائل ہیں اور ہمارا دین جس پر ہم کار بند ہیں وہ اپنے رب کی کتاب، اپنے نبی کی سنت، اور جوصحابہ، تابعین اور ا ئمہ محدثین سے مروی ہے اس سے تمسک ہے ۔ ہم اسی کو مضبوطی سے تھامنے والے ہیں ۔ اور جس کے ابو عبداللہ احمد بن حنبل۔[ اللہ ان کا چہرہ تروتازہ رکھے، ان کے درجہ کو بلند فرمائے اور ان کو ثوابِ جزیل سے نوازے]قائل تھے، ہم بھی اسی کے قائل ہیں ۔ جو عقیدہ ان کے قول کے مخالف ہے ہم بھی اس عقیدہ کے مخالف ہیں ۔ کیوں کہ آپ ایسے امام فاضل اور رئیس کامل ہیں جس کے ذریعے اللہ نے حق کو واضح کیا، گمراہی کو دفع کیا،منہج کو منکشف کیا اور مبتدعین کی بدعت،شک کرنے والوں کا شک اور کج رووں کی کجی کا قلع قمع کیا ۔پس اللہ کی اس امام مقدم ، جلیل معظم اور کبیر مفہم پر رحمت ہو۔ [1]
[1] امام احمد رحمہ اللہ ان نمایاں ترین اشخاص میں سے تھے جن کی محبت کو اہل السنہ میں سے ہونے کی علامت قرار دیاگیا۔ باالخصوص خلق قرآن کے مسئلہ کے بعد آپ کو اللہ نے امامت اہل السنہ کا مقام عطا فرمایا۔ حتی کہ امام اہل السنہ کہا جائے گا تو ذہن انہی کی طرف متبادر ہوتا ہے۔ یہاں جس طرح مؤلف نے امام احمد کے قول کو اپنا نے کی وضاحت کی ہے اسی طرح دیگر کبار آئمہ سے بھی اسی طرح منقول ہے۔ ابن جریر طبری صریح السنہ میں مؤلف ہی کی طرح فرماتے ہیں ۔ یاد رہے کہ امام اہل السنہ کہنے کا مطلب اہل السنہ کے ہاں ویسا نہیں جیسا غلاۃالمقلدین کے ہاں امام کا معنی ہوتا ہے۔ بلکہ اہل السنہ کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر کسی کی بات رد بھی ہو سکتی ہے اور قبول بھی۔ اگر شریعت کے موافق ہو تو حق اور مخالف ہو تو مردود۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ تقوی، فقہ اور حدیث میں نمایاں افراد کو امام کہا جا سکتا ہے جیسا کہ قرآن میں مومنین کی دعا ہے:واجعلنا للمتقین اماماً۔[امام احمد کے حالات پر ہم نے تفصیلی بحث اپنی مطبوعہ کتاب مجموعہ مقالات اصول السنہ لاما م احمد کے مقدمہ میں کر دی ہے ۔