کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 54
اپنے نفوس کے نفع و تقصان کے مالک ہیں ۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے " آپ کہہ دیجیے میں اپنے نفس کے کسی نفع و نقصان کا مالک نہیں سوائے اس کے جو اللہ چاہے۔‘‘ [الاعراف: ۱۸۸]اہل قدر کے یہ گمان قرآن سے اور جس پر اہل اسلام کا اجماع ہے اس سے اعراض کی صورت ہیں ۔ ۷۔ اہل قدر کا عقیدہ ہے کہ وہ اپنے رب سے ہٹ کر اپنے اعمال پر قدرت رکھنے میں منفرد ہیں ۔ یوں اپنے نفوس کے لیے انہوں نے اللہ سے بے پروائی ثابت کی، اور اپنے نفوس کی ان اشیاء پر قدرت ثابت کی جن پر اللہ کی قدرت ثابت نہیں کی، جیسا کہ مجوس لعنھم اللہ نے شیطان کی شر پر وہ قدرت ثابت کی جو اللہ کے لیے ثابت نہیں کی۔ پس یہ " اس امت کے مجوسی ہوئے" کہ انہی کے دین کو اپنایا، انہی کے اقوال سے تمسک کیا اور انہی کی گمراہیوں کی طرف مائل ہوئے۔ ۸۔ انہوں نے لوگوں کو اللہ کی رحمت سے نا امید کیا، اس کی روح سے یا س دلائی اور نافرمانوں پر خلو د فی النار کا برخلاف قول ربانی حکم لگایا کہ اللہ کا تو فرمان ہے۔ ’’ اور اس سے کم جس کے لیے وہ چاہے وہ بخش دیتا ہے۔‘‘ [النساء: ۴۸] ۹۔ ان کا یہ بھی موقف ہے کہ جو دوزح میں داخل ہو گیا پھر باہر نہیں نکلے گا، یہ موقف ان روایات کے خلاف ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ ’’ بے شک اللہ عزوجل ایک قوم کو جہنم سے اس کے بعد نکالے گا کہ وہ ا س میں کوئلے ہو چکے ہوں گے۔‘‘ [1] ۱۰۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے باوجو د ﴿وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ﴾’’اور تیر ے رب کا چہرہ باقی رہ جائے گا جو جلال و اکرام والا ہے۔‘‘ [الرحمن: ۲۷]انہوں نے اس بات کا انکار کیا ہے کہ اللہ کا چہر ہ ہو۔ ۱۱۔ باوجود اللہ کے اس فرمان کے اللہ کے دو ہاتھوں کا بھی انکار کیا ہے:﴿ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾جس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا۔[ص:۷۵]
[1] بخاری : ۷۴۳۸، ۶۵۷۳، ۸۰۶و مسلم:۱۸۲