کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 53
شر کا خالق ، یہ بھی اس بات کا اثبات کرتے ہیں کہ بندے شر کو پیدا کرتے ہیں ۔ قدریہ کا گمان ہے کہ اللہ عزوجل خیر کو پیدا کرتے ہیں اور شیطان شر کو۔[1] ان کا گمان ہے کہ اللہ عزوجل ایسی چیز بھی چاہتا ہے جو ہوتی نہیں ، اور وہ کچھ بھی ہوتا ہے جو اللہ نہیں چاہتا۔ [یہ موقف]اس کے خلاف ہے جس پر مسلمانوں کا اجماع ہے جو اللہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو وہ نہ چاہے تو وہ نہیں ہوتا۔ اہل قدر نے یہ موقف اللہ عزوجل کی یہ آیت رد کرتے ہوئے اپنایا ہے:" تم نہیں چاہتے کہ اللہ چاہے" [الدھر:۳۰]پس اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ ہم کچھ نہیں چاہتے مگر اللہ نے چاہا ہوتا ہے کہ ہم وہ چاہیں ۔[اللہ تعالیٰ نے فرمایا:]" اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتاتو وہ نہ لڑتے‘‘ [البقرہ:۲۵۳] [اور فرمایا:]" اور اگر ہم چاہیں تو ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیں ۔‘‘(السجدہ:۱۳)اور فرمایا:’’وہ اس کو کر گزرنے والا ہے جس کا وہ ارادہ کرتا ہے۔ " [البروج: ۱۶]اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی شعیب کے متعلق خبر دی کہ انہوں نے کہ :" اور ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ ہم اس میں لو ٹ جائیں الایہ کہ ہمارا رب اللہ چاہے ، ہمارا رب علم کے اعتبار سے ہر چیز کو وسیع ہے۔" [الاعراف: ۸۹]اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو’’اس امت کا مجوسی ‘‘ [2] قرار دیا کہ انہوں نے مجوسیوں کے دین میں ان کی ہم نوائی کی اور ان کے موقف کی مشاھبت کی، اور جیساکہ مجوسی نے گمان کیا انہوں نے بھی گمان کیا کہ خیر و شر کے دو خالق ہیں اور ایسا شر بھی پایا جاتا ہے جو اللہ نہیں چاہتا جیسا کہ مجوسی کہتے ہیں ۔ اور یہ بھی کہ اللہ سے ہٹ کر یہ خود
[1] یہ بات اس خیر کے متعلق تو درست ہو سکتی ہے جو انسان کے فعل سے خارج ہو وگرنہ معتزلہ کے نزدیک انسان اپنے فعل کا خالق ہے، خواہ وہ خیر ہو خواہ شر۔ جس نے بھی یہ نقل کیا ہے کہ معتزلہ کے نزدیک انسان صرف اپنے بد اعمال کا خالق ہے اس کو غلطی لگی ہے۔ افادہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فی بعض کتبہ۔ [2] ابو داود: ۴۶۹۱، حاکم ۱؍۱۵۹،لالکائی۳؍۶۳۹۔اور ہم معنی روایت کے لیے دیکھیے مسند احمد: ۲؍ ۸۶، ۵؍ ۴۰۶۔ ۴۰۷، الشریعۃ: ۱۹۵،ابن ماجہ :۹۲ شیخ البانی نے ان حدیثوں کو حسن کہا ہے ۔صحیح الجامع : ۴۳۱۸)