کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 46
الابانہ عن اصول الدیا نہ السید الشیخ الامام ابو الحسن علی بن اسماعیل بن ابی بشر الاشعری البصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو واحد و أحد ہے، پالنے والا ، عزت والا ، بزرگی والا اور توحید میں یکتا ہے۔اور ایسے مجد والا ہے جس تک بندوں کی صفات پہنچ نہیں پاتیں ، نہ ہی تو کوئی اس کا ہم مثل ہے اور نہ ہی کوئی شریک، وہی ازسرنو پیدا کرنے والا وہی لوٹا نے والا ہے،اپنے ارادے کو کر گزرنے والا ہے۔وہ اہلیہ اور اولاد پکڑنے سے برتر ہوا اور اجناس و ار جاس سے خلط ملط ہونے سے پاک ہوا۔ پس نہ تو کوئی اس کی صورت ہے جو بیان کی جائے۔[1] اور نہ ہی اس کی کوئی حد ہے جس کی مثال دی جائے۔ انہی صفات سمیت ہمیشہ سے
[1] صور ۃ لغت میں :ہیئت، شکل، حقیقت اور صفت کو کہتے ہیں (تاج العروس،۳؍۲۴۲ )اللہ تعالیٰ کے لیے صفت صورۃ کے اثبات میں علماء کے ہاں اختلاف ہے۔ جمہور اہل الحدیث و السنۃ اس صفت کو اللہ کے لیے ثابت قرار دیتے ہیں ۔ اور اس صورۃ کی کیفیت کے متعلق کلام نہیں کرتے۔ اگر تو مؤلف کی مراد یہی ہے کہ صورۃ بیان نہیں کی جا سکتی تو یہ برحق ہے ۔ اور اگر یہ مرا د ہے کہ اللہ کی صفت صورۃ نہیں تو یہ محل نظر ہے۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ مؤلف کی مراد یہ ہی ہے۔کیونکہ نفی صورۃمؤلف نے معتزلہ سے نقل کی ہے۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں : چہرے اور صورت کا ثبوت کتا ب اور سنت متواترہ کی کئی ایک نصوص میں ہے۔ اور امت کے سلف کا اس پر اتفاق ہے۔ (بیان تلبیس الجہمیہ۶؍ ۵۲۶)صورۃ کا اثبات احادیث صحیحہ میں موجو د ہے۔ خلق اللہ آدم علی صورتہ کی بعض علماء مثلاًابن خزیمہ ، ابن حبان وغیرہ نے تاویل کی ہے۔ مگر جمہور اہل سنت کے ہاں ان کا قول مرجوح ہے۔ صورۃ کا اثبات ابن قتیبہ ، ابن تیمیہ ، آجری ، قوام السنہ وغیرہ نے کیا ہے۔ ابن تیمیہ فرماتے ہیں :قرون ثلاثہ میں کوئی نزاع نہیں تھا کہ یہ ضمیر اللہ کی طرف عائد ہے۔ (بیان تلبیس الجہمیہ۶؍ ۳۷۳)(انتھی ملخصاً من تعلیقات العصیمي