کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 42
رسالہ السنہ میں کہاہے:جو شخص کسی بھی صحابی کی تنقیص کرے یا برا بھلا کہے ،تھوڑا سا طعن کرے یا زیادہ وہ خبیث،بدعتی اور رافضی ہے اللہ تعالیٰ اس سے عدل و صرف قبول نہیں کرے گا۔[1] قدریہ: اہل السنہ کے نزدیک قدریہ وہ ہیں جو تقدیر کے چار مراتب میں سے کسی ایک مرتبے کی نفی کرتا ہو۔وہ چار مراتب یہ ہیں :اللہ کا علم ،اللہ کا تقدیر لکھنا ،اللہ کی مشیئت سے اعمال کا ہونااور اللہ کا انسان کے اعمال کا خالق ہونا ۔اللہ کے علم کی نفی کرنے والے لوگ بہت پہلے ختم ہوچکے ہیں ۔ موجودہ قدریہ انسان کو خود اپنے اعمال کا خالق قرار دیتے ہیں ۔قدریہ کی ابتداء معبدبن خالد الجہنی سے ہوئی ۔جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس نے یہ عقیدہ سوسن عیسائی سے لیا ۔اور معبدسے غیلان دمشقی نے ۔یہ لوگ اللہ کے علم کے بھی منکر تھے۔صحابہ کے آخری زمانہ میں ان کا ظہور ہوا تو صحابہ نے ان کا رد کیا ۔ان سے یہ عقیدہ معتزلہ نے لیا ۔اب قدریہ کے عقائد کے حاملین روافض اور معتزلہ ہیں ۔قدریہ کے بہت سے گروہ ہیں ۔معتزلہ اپنے آپ کو قدریہ ماننے کی بجائے تقدیر کا اثبات کرنے والوں کو قدریہ کہتے ہیں ، لیکن اہل السنہ کی اصطلاح میں تقدیر کی نفی کرنے والے ہی قدریہ ہیں ۔قدریہ کو اس امت کے مجوسی بھی کہا جاتا ہے۔ مجوس:zoroastriaism مجوسی ،پارسی اور آتش پرست یہ ایک ہی مذہب کو کہا جاتا ہے ۔زردشت یہ بھی انھی کو کہا جاتا ہے ۔بعض محققین کے نزدیک مجوسیت زردشت نامی شخص سے پہلے ہی موجود تھی ۔اس شخص نے اس کو صرف تازہ کیا۔ان کی کثیر تعداد ایران اور آذر بائیجان میں ہے۔ان کی کل تعداد دو لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔
[1] السنہ للکرمانی:۷۴