کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 40
چوتھی نشست: کتاب میں موجود فرقوں کا مختصر تعارف جہمیہ: ابومحرز جہم بن صفوان ترمذی کی طرف نسبت ہے۔اس شخص نے ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کی نفی کی تو دوسری طرف انسان کو مجبور بھی قرار دیا ۔جنت و جہنم کے مخلوق ہونے کا انکار بھی کیا اور دیگر گمراہیاں بھی اپنی کوکھ سے جنم دیں ۔[1]
[1] جہمیہ کے تعارف میں سلفی ریسرچ انسٹیٹوٹ کی مطبوعہ کتاب اصول السنہ للحمیدی کی اردو شرح میں یہ لکھا ہوا ہے:’’ اس نے سمرقند ،خراسان میں پرورش پائی پھر ایک عرصہ ترمذ میں ٹھہرا یہ بدعتی اور گمراہ انسان تھا اس نے صفات کا انکار کیا اور خلق قرآن کا قائل تھا اور فرقہ جہمیہ کا بانی تھا اور کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اور ایمان صرف دل سے تصدیق کرنے کو مانتا تھا خواہ انسان زبان سے کفر ہی کرتا رہے ۔ اس گمراہ انسان کو سلیم بن احوز نے ۱۲۸ھ کو مقام مرو پراس وجہ سے قتل کر دیا کہ اس نے کہا کہ موسی علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام نہیں کیا ۔ اس کے نظریات میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا صرف وجود ہے اس کی کوئی صفت نہیں ہے اور وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام کائنات میں حلول کئے ہوئے ہے ،ظاہر ہے کہ یہ نظریہ عیسائیوں کے نظریہ سے بھی زیادہ بدتر ہے ۔امام ابن القیم رحمہ اللہ اپنے قصیدہ نونیہ (۲۴)میں جہمیوں کی اس گمراہی کی ایک عجیب انداز میں خبر لی فرماتے ہیں : وکذلک الجھمی قیل لہ استوی فابی وزاد الحرف للنکران اور اسی طرح جہمیوں نے استوی میں ایک حرف لام زائد کرکے استولی بنا ڈالا نون الیہود ولام الجھمی ھما فی وحی رب العرش زائدتان جیسے یہودیوں نے حطۃ میں نون کا اضافہ کیا تھا ،اسی طرح جہمیوں کا لام (استوی)میں زائد ہے یہ دونوں الفاظ قرآن مجید میں اضافہ ہیں ۔ اس کے مفصل حالات درج ذیل کتب میں ہیں ۔(تاریخ طبری : ۷؍۲۲۰،الکامل فی التاریخ ، ۵؍ ۳۴۲۔۳۴۴،میزان الاعتدال: ۱؍۴۲۶، رقم:۱۵۸۴،سیر اعلام النبلاء: ۶؍۶۲رقم:۸،لسان المیزان: ۲؍۲۵۷رقم:۲۱۶۵،الوافی بالوفیات: ۱۱؍۲۰۷،رقم:۳۰۵)(ماخوذ از شرح رسالہ نجاتیہ ط:سلفی ( (