کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 37
زندقہ: بعض اہل علم کے نزدیک نفاق کے مترادف ہے ،بعض کے نزدیک الحاد کا قائل ہونا زندقہ ہے جبکہ بعض کے نزدیک مجوسیوں کی ایک قسم ہے۔جمہور اس کو نفاق کے معنی ہی میں استعمال کرتے ہیں ۔بعض اوقات اسلام کے بنیادی عقائد میں رخنہ ڈالنے والے کوبھی زندیق کہا جاتا ہے ۔ ظلم: عقائد میں اختلا ف بہت سارے الفاظ کی توضیح و تعریف میں بھی اختلاف پیدا کردیتا ہے ۔ظلم بھی ان الفاظ میں سے ہے جو اس ظلم کا شکار ہوا کہ اس کی بھی غلط تعریفات کی گئیں ۔اہل السنہ والحدیث یا جو اس مسئلہ میں ان کے موافق ہیں ان کے علاوہ سب نے اس کی تعریف میں ٹھوکر کھائی ہے۔غیر کی ملکیت میں تصرف کرنے کا نام ظلم ہے ۔جمہور اشاعرہ کا یہی موقف ہے۔بعض نے منع کی شرط کا اضافہ کیا ہے۔[1] جس نے اضافہ نہیں کیا اس کے لیے بھی اس اضافے کے بناء کوئی چارہ نہیں ۔کیونکہ باجازت کسی کی ملکیت میں تصرف کرنے والے کو کوئی بھی ظلم نہیں کہتا۔سلیمان بن خلف باجی رحمہ اللہ نے ظلم کی تعریف یہ کی ہے :ظلم تعدی کو کہتے ہیں ۔اس کا معنی یہ ہے کہ مکلف کو حکم دیا جائے وہ حکم عدولی کرے۔اس اعتبار سے غیر مامور کو ظلم سے متصف نہیں کیا جا سکتا۔[2] بعض کے نزدیک شرح کی حد سے تجاوز کا نام ظلم ہے ۔بعض کے نزدیک حق سے باطل کی طرف تجاوز کرجانا ظلم کہلاتا ہے۔[3] بعض کے نزدیک جس کی اطاعت واجب ہو اس کی نافرمانی ظلم کہلاتی ہے جیسا ابن تیمیہ نے قاضی ابویعلی سے نقل کیا ہے ۔[4] اور الافاضہ لابی الحسن السندھی میں مذکور ہے ۔[5] معتزلہ کے نزدیک نفع ،دفع اور استحقاق سے خالی فعل ظلم
[1] الحدود لابن الفورک :۱۲۳ [2] الحدود للباجی :۲۳ [3] کشاف اصطلاحات الفنون :۳؍۱۸۶،الکلیات:۵۹۴ [4] منہاج السنہ [5] مقدمہ الانفاس الرحمانیہ لعلی عن عبدہ الالمعی :۱۴۲