کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 36
سے عصمت کا نام خذلان ہے ۔ابن فورک نے اشعری سے نقل کیا ہے کہ مطلق گناہ کی قدرت خذلان نہیں ،کفر کی قدرت خذلان ہے ۔[1] یاد رہے کہ اشعری کے نزدیک استطاعت فعل سے مقارن ہوتی ہے۔معتزلہ کے نزدیک لطف الہی کا نہ ہونا خذلان ہے۔ (لطف کی توضیح آگے آرہی ہے)یاد رہے کہ اہل السنہ والحدیث کے نزدیک لطف اور توفیق ایک ہی چیز ہیں ۔لغوی کہتے ہیں :خذلان عدم توفیق ،اطاعت پر اعانت اور انسان کو اپنے نفس کے ساتھ چھوڑ دینا خذلان ہے ۔[2] امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :عارفین کا اجماع ہے کہ خذلان یہ ہے کہ اللہ کسی شخص کو اس کے نفس کے سپرد کردے ۔[3] یہی بات راجح ہے کہ خذلان عدم نصرت و اعانت ہے جیسا کہ لغوی حنفی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے پس توفیق اور خذلان کی آپس میں نسبت تقابل العدم والملکۃ ہے ۔توفیق ایجابی ہے، خذلان سلبی ہے،توفیق اللہ کا فضل ہے اور خذلان عدل۔توفیق نیکی پر انسان کی اعانت ہے اور خذلان عدم اعانت ۔ولا حول ولا قوۃ الا بااللّٰہ۔ جارحۃ: جارحۃ آلۂ اکتساب کو کہتے ہیں ،شکاری کتوں اور شکاری باز کو بھی جوارح کہا جاتا ہے ۔انسان کے ہاتھ ،پاؤں ،زبان وغیرہ بھی جوارح ہیں ۔علم کلام میں اس کی بحث اثبات صفات کے ضمن میں آتی ہے ۔اہل السنہ جب یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاتھ ہیں ،چہرہ ہے وغیرہ جیسا کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے تو مخالفین کہتے ہیں اس سے یہ لازم آیا کہ اللہ کے بھی جوارح ہیں یعنی آلۂ اکتساب ہے جس سے اللہ پکڑتا ہے وغیرہ اس سے تو تشبیہ اور احتیاج لازم آیا ۔اس کے جواب میں اہل السنہ یہ کہتے ہیں کہ جارحہ کا لفظ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ۔اس لیے ہم اس کا اثبات نہیں کرتے اور نہ یہ لفظ بولنا جائز سمجھتے ہیں ۔[4]
[1] مجرد مقالات الاشعری :۱۲۳ [2] الکلیات:۳۱۰ [3] مدارج السالکین :۱؍۴۱۵ [4] دیکھیۓ الحمویہ لابن تیمیہ