کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 35
کہتے ہیں جس کے توسط سے آدمی کے لیے خیر کاکام کرنے کا اتفاق ہوتا ہے۔[1] راغب اصفہانی کے نزدیک توفیق اور اتفاق ایک ہیں ۔دونوں میں صرف یہ فرق ہے کہ توفیق خیر میں استعمال ہوتا ہے اور اتفاق خیر و شر دونوں میں ۔اور انسان کے فعل کا تقدیر کے مطابق ہوجانا اتفاق کہلاتا ہے۔[2] اشعری کہتے تھے :بطور لغت توفیق:لطف عصمت و غیرمعاصی کے لیے بھی استعمال ہو سکتے ہیں لیکن ہم نے مسلمانوں کی عادت کی بدولت ان کو ایمان سے خاص کیا ہے۔[3] ابوالبقاء لغوی حنفی کہتے ہیں :توفیق تسہیل اور کسی چیز کا دل پر حسن واضح کردینے کا نام ہے ۔نہ تو قدرۃ علی الطاعۃ پیدا کرنے کو توفیق کہتے ہیں اور نہ ہی اطاعت پیدا کرنے کو ،کیونکہ قدرت ضدین (کرنے،نہ کرنے)کے لیے درست ہوتی ہے۔اور اطاعت توفیق پر متوقف ہے ۔توفیق اطاعت کا سبب ہے بس توفیق نصرت و تیسیر کا نام ہے۔[4] امام ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں :عارفین کا اجماع ہے کہ توفیق یہ ہے کہ اللہ آپ کو آپ کے نفس کے سپرد نہ کرے ۔[5] مذکورہ بالا تمام تعریفات میں سے مؤخر الذکر لغوی کی تعریف ہی راجح ہے ۔اہل السنہ کے نزدیک توفیق قدرت پیدا کرنے کا نام نہیں ۔بلکہ اقدار سے زائد چیز ہے ۔نیز توفیق اللہ پر واجب نہیں ۔محض اللہ کا فضل ہے اس کی موجودگی میں انسان اطاعت بجا لاتا ہے ۔ خذلان: خذلان توفیق کی ضد ہے ۔ہر گروہ نے توفیق کی جو تعریف کی ہے اس کا عکس خذلان قرار دیا ہے ۔جمہور اشاعرہ کے نزدیک خذلان انسان میں معصیت کی قدرت پیدا کرنے کا نام ہے ۔اکثر کتب میں یہی تعریف ہے۔برسبیل مثال دیکھیں ۔[6] بعض کے نزدیک گناہ
[1] الحدودلابن فورک:۱۱۶ [2] مفردات القرآن:۸۷۷ [3] مجرد:۱۲۶ [4] الکلیات :۳۱۰ [5] مدارج السالکین :۱؍۴۱۵ [6] التوقیف :۱۵۳،کشاف اصطلاحات الفنون :۲؍۶۷،الحدود لابن فورک:۱۱۶