کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 34
ہے ۔تعطیل کے کئی ایک مراتب ہیں ۔جن میں سے سب سے بڑا درجہ تعطیل ذات باری ہے ۔اس کے بعد مختلف درجے ہیں ۔یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کو بلا چون و چرا تسلیم کرنا ہی واجب ہے ۔نہ تو ان میں تاویل کی گنجائش ہے اور نہ ہی تعطیل کی ۔ تنزیہ: اس کا معنی ہے عیب سے پاک قرار دینا۔اس سے مراد یہ ہوتا ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہر عیب سے پاک ہے ۔نہ وہ مخلوق سے مشابہ ہے اور نہ ہی اس کے لیے ثابت شدہ صفات ایسی ہیں کہ کوئی ان میں نقص ہو کہ جس بناپر ان کی تاویل کی جائے۔بلکہ اس کی تمام صفات صفاتِ کمال ہیں اور اپنے ظاہر پر ہیں ۔ اس کلمہ کی آڑ لے کر ہی متکلمین اللہ تعالیٰ کی صفات کی تاویل کرتے ہیں اور نام لیتے ہیں تنزیہ کا ۔یہ درحقیقت تسمیۃ الشیء بخلافہ کے باب سے ہے ۔ان کی ایسی باطل تنزیہ سے تنزیہ واجب ہے۔ توفیق: اس کی تعریف کئی طرح سے کی گئی ہے ۔مناوی نے یوں تعریف کی ہے اللہ تعالیٰ کا کسی شخص کو اس کے موافق کردینا جس سے وہ محبت کرتا اور پسند کرتا ہے۔[1] ان سے پہلے یہی تعریف جرجانی نے کی ہے ۔[2] معتزلہ کے نزدیک توفیق اطاعت کی طرف بلانے اور دعوت دینے کانام ہے ۔بعض اشاعرہ کے نزدیک اطاعت کی قدرت پیدا کرنے کا نام توفیق ہے ۔ جوینی کے نزدیک قدرت کی بجائے اطاعت پیدا کرنے کا نام توفیق ہے۔[3] ابوالحسن اشعری سے ابن فورک نے نقل کیا ہے ایمان لانے کی قدرت دینا توفیق ہے ۔[4] ابن فورک کہتے ہیں :توفیق اس چیز کو
[1] التوفیق علی مہمات التعریف :۱۱۳ [2] التعریفات:۶۲اور دیکھیے روح المعانی:۱۲؍۱۲۱ [3] کشاف اصطلاحات الفنون :۱؍۵۳۲ [4] مجرد مقالات اشعری :۱۲۳