کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 31
اسی طرح ابن قیم سے صاحب موقف ابن تیمیہ من الاشاعرۃ نے ایک عبارت نقل کی ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام اشعری نے مکمل رجوع نہیں کیا تھا بلکہ کچھ اثرات باقی رہ گئے تھے ۔[1] اس لیے ابن تیمیہ و ابن قیم کی طرف رجوع تام کے موقف کی نسبت کرنا وہم سے خالی نہیں اگرچہ دونوں شیخین اس کے قائل ہیں کہ الابانہ امام اشعری کی آخری کتب میں سے ہے جس میں موصوف امام اہل السنہ کے انتہائی قریب ہوگئے۔شاید اسی بنیاد پر بعض لوگوں کو غلطی لگی ۔واللّٰہ اعلم یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم دونوں امام اشعری کی کتب سے خوب واقف تھے بلکہ دونوں نے الابانہ ،مقالات الاسلامیین اور ابن تیمیہ نے رسالۃ الی اہل الثغر سے اقتباسات نقل کیے ہیں ۔اس کے باوجود شیخ الاسلام یہ نہیں کہتے تھے کہ امام اشعری پر ابن کلاب کے مسائل کا کچھ اثر باقی نہ رہا تھا۔اور وہ تمام مسائل میں اہل السنہ کے مذھب پر آگئے تھے۔ نیز امام اشعری بہت سے مسائل میں ابن کلاب سے اختلاف رکھتے تھے ۔مقالا ت الاسلامیین میں آپ نے اہل السنہ کا مذھب اپنے علم کے مطابق ذکر کے اور اسی کو اپنا مذھب قرار دے کر لکھا کہ ابوعبداللہ القطان (ابن کلاب)کے اصحاب بھی ان اکثر باتوں کے قائل ہیں جو ہم نے اہل السنہ سے نقل کی ہیں ۔ [2] المختصر ہمارے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ امام موصوف اگرچہ الابانہ میں اہل السنہ کے انتہائی قریب آگئے مگر چند ایک مسائل میں ان کو غلطی لگی اور ان شاء اللہ یہ چند مسائل ان میں سے ہیں جن کی بنا پر تبدیع جائز نہیں ۔نیز الابانہ میں کئی نصوص ایسی
[1] (دوسرے دور کی پیروی کرتے ہیں اور وہ تاویل کے مذہب پر تھے یعنی کہ اللہ کی صفات کی تاویل ۔ ( الفتاوی: ۳؍ ۳۳۸ نیز دیکھیں ان کی کتاب الفتاوی ، کتاب العلم ص: ۲۲۶)  دیکھیے:موقف ابن تیمیہ من الاشاعرۃ:۱؍۳۹۶ [2] مقالات الاسلامیین ص:۲۹۸