کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 30
الحافظ (م:۴۴۹)امام ابن عساکر(م:۵۷۱ھ)شیخ الاسلام ابن تیمیہ(م:۷۲۸ھ) [1] مذکورہ بالا علماء میں سے کچھ نے نص بیان کی ہے کہ الابانہ آخری کتب میں سے ہے اور کچھ نے ابوالحسن اشعری کا اسی کتاب کی بنیاد پر دفاع کیا ہے ۔ہمارا مقصود دونوں طرح حاصل ہے، کیونکہ اس عقیدے کو لے کر امام موصوف کے دفاع کا معنی ہی یہی ہے کہ وہ اسی اعتقاد پر فوت ہوئے ۔اسی لیے ہم نے ان تمام علماء میں سے بعض کے نام اکٹھے ذکرکر دیے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا الابانہ اور مقالات الاسلامیین میں مذکور عقیدہ مکمل اہل السنہ کا عقیدہ ہے ؟بعض علماء کا خیال تو یہ ہے کہ الابانہ مکمل طور پر اہل السنہ کے مذھب کی نمائندگی کرتی ہے اور امام موصوف مکمل طور پر اہل السنہ کے مذھب پر آگئے تھے ۔ان میں ابن کثیر ،محب الدین خطیب،ابوبکر الخلیل ابراہیم الموصلی اور دکتور محمد علی صلابی وغیرہ شامل ہیں ۔ ابوبکر خلیل موصلی نے اپنی کتاب شعبۃ العقیدہ میں اسی موقف کو یعنی رجوع تمام کو ابن تیمیہ اور ابن قیم کی طرف بھی منسوب کیا ہے۔انھی کی پیروی میں دکتور صلابی نے بھی یہی کہا ہے ۔موصوف نے مجموع الفتاوی(۶؍۵۳)کا حوالہ دیا ہے۔محولہ مقام کی طرف میں نے رجوع کیا تو وہاں شیخ الاسلام نے امام اشعری کے رجوع تام کا ذکر نہیں کیا بلکہ مذھب سلف میں امام اشعری کی معروف تقصیر کا ذکر کیا ہے۔[2]
[1] دیکھیے:موقف ابن تیمیہ من الاشاعرہ :۱؍۳۸۳،۳۸۴،شعبۃ العقیدۃ بین ابی الحسن الاشعری و المنتسبین اللہ فی العقیدۃ ص:۴۷،۴۸۔ [2] یہ کچھ حقائق کے قریب ہے امام ابن تیمیہ نے کہا کہ امام ابو الحسن اشعری تین ادوار سے گزرے ۔ ایک معتزلی دور پھر کلابی دور اور پھر اہل السنہ کےمذہب پر جو امام احمد کا منہج تھا۔امام ابو الحسن نے اپنا آخری موقف اور عقیدہ اپنی تین کب میں ذکر کیا رسالہ اہل الثغر ،مقالات اسلامیین اور الابانہ ۔لہٰذاجو لوگ امام اشعری کے تیسرے دور پر ہیں تووہ اکثر مسائل میں اہل السنہ والجماعہ کے مذہب پر ہیں ۔ اور جو دودسرے دور پر ہیں تو وہ الاشعری کے مذہب کے خلاف اور برعکس ہے اور وہ اہل السنہ کے اکثر مسائل کےخلاف ہے ۔ ( مجموع الفتاویٰ : ۴؍ ۷۲) شیخ ابن العثیمین نے کہا: بعد میں آنے والے علماء جو اپنے آپ کو اشعری کہلاتے ہیں وہ اس کے ( (