کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 29
۱: امام اشعری کے بعض اصحاب نے وضاحت کی ہے کہ الابانہ موصوف کی آخری کتاب ہے۔جیسا کہ ابن تیمیہ نے کہا ہے ۔[1] ۲: امام ابن کثیر سے زبیدی نے اتحاف السادۃ المتقین میں نقل کیا ہے کہ اشعری تیسرے دور میں تمام صفات کا بغیر تکییف و تشبیہ کے اثبات کرتے تھے۔اور یہی الابانہ میں موصوف کا طریقہ ہے جو کہ انھوں نے آخر میں لکھی۔ ۳: اسی الابانہ کے ذریعے علماء امام اشعری کا دفاع کرتے چلے آئے ہیں ۔جیسا کہ ابن عساکر (م:۵۷۱ھ)ابن درباس (م:۶۵۹ھ)وغیرہ نے کہا ہے۔ ۴: بعض علماء نے ذکر کیا ہے کہ اشعری نے اپنی کتاب العُمُدجس میں اپنی تصنیفات کا ذکر کیا ہے اس میں الابانہ کو درج نہیں کیا ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ الابانہ (اللمع)کے بعد لکھی گئی ۔[2] ۵: مزید برآں کئی ایک علماء نے وضاحت کی ہے کہ الابانہ موصوف کی آخری کتب میں سے ہے اور اسی پر اعتماد کیا ہے، ان علماء سے چند ایک یہ ہیں : امام ابوبکر البیہقی(م:۴۵۸ھ)شیخ الاسلام اسماعیل بن عبدالرحمن النیسا بوری ابو عثمان
[1] ( کا کلام ہے ۔ ( الاعتقاد والہدایۃ الی سبیل الرشاد ص: ۳۱)،امام ذہبی نے العلو لعلی الغفار (ص: ۲۸۷) میں اس کتاب سے کچھ اہم اقوال نقل کیے ۔ امام ذہبی نے کہ الابانہ ابو الحسن الاشعری کی مشہور تصنیف ہے ۔ ابن فرحون نے کہا: ابو الحسن میں سے کتاب الجمع الکبیر ،الجمع الصغیر اور کتاب الابانہ عن اصول الدیانہ، دیکھیے الدیباج المذہب ص: ۱۹۳۔ ۱۹۴، ابن العماد الحنبلہ، شذرات الذہب : ۲؍ ۳۰۳، مرتضی الزبیدی ،اتحاف السادۃ المتقین: ۲؍ ۲، ابن درباس نے دیکھیے رسالۃ فی الذب الی الحسن الاشعری ص: ۱۰۷۔ ۱۰۸،ابن تیمیہ نے الفتوی الحمویۃ لابن تیمیہ ص: ۷۰ اور ابن قیم نے اجتماع الجیوش میں ۔  الفتوی الحمویہ الکبری ص:۵۵ [2] دیکھیے :موقف ابن تیمیہ من الاشاعرہ:۱؍۳۸۱