کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 28
بعض علماء کے نزدیک امام صاحب کے دو نہیں تین دور ہیں ۔ان میں بھی دو گروہ ہیں :ایک گروہ یہ سمجھتا ہے کہ اعتزال سے تائب ہو کر آپ اس مذھب پر چلے جس پر آج کل کے اہل الحدیث ہیں (یعنی اہل السنہ کے مذھب پر چلے)پھر مزید تحقیق کی تو اس مذھب پر آگئے جو اشاعرہ کا مذھب ہے۔[1] بعض علماء کے نزدیک آپ اعتزال سے تائب ہوئے،پھر کلابی ہوئے اور پھر اہل السنہ کے مذھب کو قبول کرلیا ۔بعض علماء کے نزدیک آپ نے خالص اہل السنہ کے مذھب کی طرف رجوع نہیں کیا بلکہ ابن کلاب کے مذھب کا کچھ حصہ بھی آپ میں موجود رہا ۔جب کہ بعض علماء کا خیال ہے کہ آپ نے مکمل طور پر خالص مذھب اہل السنہ کی طرف رجوع کر لیا تھا۔جس بات کی تائید امام اشعری کی کتب اور محققین ائمہ سے ہوتی ہے وہ یہی رائے ہے کہ اشعری اگرچہ الابانہ اور مقالات الاسلامیین میں مذھب اہل السنہ کے بہت قریب آگئے مگر اس کے باوجود ابن کلاب کے مذھب کا کچھ حصہ بھی ان میں باقی رہا ۔جیسا کہ خود الابانہ میں مسئلہ استطاعت اور مسئلہ کلام میں اس کے شواہد موجود ہیں ۔[2] ہم یہاں ذیل میں چند اس بات کی ادلہ ذکرکرتے ہیں کہ الابانہ امام اشعری کی آخری کتب میں سے ہے : [3]
[1] دیکھیے:اللمع و مقدمتہ لمحمودہ غرابہ ص:۷ [2] ابن کثیروغیرہ نے کہا کہ ابو الحسن اشعری تین احوال سے گزرے ہیں : (۱).... اعتزال۔ جس سے انہوں نے بعد میں توبہ کی ۔ (۲).... جہاں انہوں نے سات صفات عقلیہ کا اثبات کیا حیاۃ ،علم ،القدرۃ ،الارادۃ ،السمع ،البصر، کلام اور صفات الخبریہ کی تاویل مثلاً : الوجہ، الیدین، القدم،والساق۔ یہ ابن کلاب کا طریقہ تھا جیسا کہ امام ابن تیمیہ نے ذکر کیا ہے ۔ ( درء تعارض العقل والنقل : ۲؍ ۴) (۳).... اس دور میں کل صفات کا اثبات کیاگیابغیر حکییف و تشبہ جو طریقہ سلف تھا اور اسی طرح کو الابانہ میں ذکر کیاجو انہوں نے تصنیف کی ۔ (الطبقات الشافعیۃ: ۱؍ ۲۱۰) [3] بےشمار علماء نے الابانہ کی طرف منسوب کیا ہے ۔تبیین کذب المقری ص: ۱۲۵، ۱۲۸ ،امام بیہقی نے بھی کہا کہ علی بن اسماعیل ( ابو الحسن الاشعری) نے کتاب الابانہ لکھی جس میں انہوں نے قرآن کے متعلق کہا کہ یہ اللہ ( (