کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 27
ابن تیمیہ نے نبوات میں ابن کلاب جیسے لوگوں کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ جہمیہ نہیں ،بلکہ جہم کی بعض باتوں میں اس کے موافق ہے اور بعض میں مخالف ۔ یہ سلف اور اہل السنہ والحدیث سب سے قریب لوگوں میں سے ہیں ۔[1] ابن کلاب کی بعض مسائل میں جہم سے موافقت اور صفت کلام کے متعلق محدث رائے کی بنیاد پر ہی بہت سارے ائمہ نے آپ پر جرح بھی کی ہے ۔جن میں ابن خزیمہ ،ابوطاہر السِلفی ،ابوعلی حامد ھروی،ابن شاقلا،ابوعبداللہ ابن مندہ اور امام احمد امام اہل السنہ والجماعہ شامل ہیں ۔ابن تیمیہ درء تعارض العقل والنقل(۶؍۲) میں کہتے ہیں :حارث المحاسبی ،ابن کلاب کے قول کی طرف منسوب تھے ۔اسی لیے احمد نے ان کے ہجر کا حکم دیا ۔احمدبن حنبل رحمہ اللہ ابن کلاب سے لوگوں کو ڈرایا کرتے تھے۔ ابن تیمیہ الاستقامہ (۱؍۱۰۵)میں کہتے ہیں :کلابیہ ہی اشاعرہ کے مشائخ ہیں ابوالحسن اشعری نے ابومحمد بن کلاب کا طریقہ اپنایا ۔ابن کلاب زمانے اور طریقے کے اعتبار سے سلف کے زیادہ قریب تھے ۔[2] تیسرا دور: امام صاحب کا ایک دور غیرمختلف فیہ ہے اور یہ وہ دور ہے جس میں آپ اعتزال کے مذھب پر رہے، اس سے اگلے دو ادوار میں اختلاف ہے ۔بعض کے نزدیک آپ کے صرف دو دور ہیں ۔ان میں مزید اختلاف ہے،بعض کے نزدیک پہلا دور اعتزال کا اور دوسرا مذھب اہل السنہ والا جبکہ بعض کے نزدیک پہلا دور اعتزال کا اور دوسرا وہ دور ہے جس پر اشاعرہ چلے۔
[1] النبوات:۱۴۳ [2] اس دور میں کچھ مشہور فقہاء نے ابو الحسن اشعری کی پیروی کی مثلاً ابو بکر باقلانی ،الشہرستانی ،الرازی اورالغزای ،امام الحرمین اور ان کے بیٹے نے ۔انہوں نے اس دور کی اچھی خاصی تبلیغ کیاور لوگوں کو دعوت دی اور کتابیں لکھیں اس بنا پر الاشاعرہ کا مذہب بہت پھیلا۔ جب امام ابو الحسن اشعری نے ۳۸۰ھ میں شاخ کا رخ کیا تو وہاں ان کا مذہب بھی پھیلا۔(العقیدۃ الاسلامیۃ وتاریخہا ص: ۱۲۳۔ ۱۲۴)