کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 26
کے ہاں کلام نفس میں ہوتا ہے۔اور یہ قدیم ہے جبکہ معتزلہ کے ہاں قرآن مخلوق ہے ۔ابن کلاب کا یہ موقف اہل السنہ کے موقف کے خلاف تھا۔اہل السنہ کے نزدیک اللہ تعالیٰ صوت و حروف سے جب چاہے کلام کرتا ہے ۔وہ شروع سے متکلم ہے اور قرآن اللہ کا کلام ہے۔ ابن الجوزی لکھتے ہیں :اشعری نے ایک مقالہ ظاہر کیا جس سے فتنے پھیل گئے ۔لوگوں کا اس میں کوئی اختلاف نہیں تھا کہ مسموع اللہ کاکلام ہے اور اس کو لے کر جبریل علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے ۔معتمد علیہ ائمہ نے اسے قدیم کہا اور معتزلہ نے مخلوق ۔جب کہ اشعری نے کہا :یہ اللہ کا کلام نہیں ،اللہ کا کلام اس کی ذات سے قائم صفت ہے نہ تو وہ نازل ہوئی ہے اور نہ ہی وہ مسموع ہے ۔[1] ذیل میں ابن کلاب کا تعارف ملاحظہ کریں۔ ابن کلاب اور دوسرا دور : ابومحمد عبداللہ بن سعید بن کلاب القطان ۔آپ نے کئی ایک کتب معتزلہ کے رد میں لکھیں ۔آپ کہتے تھے کہ مخلوق پر علو باری نص کے مطابق فطرۃً و عقل سے معلوم ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے کئی کتب میں آپ کی تعریف کی ہے ۔آپ اکثر مسائل میں اہل السنہ کے موافق تھے ۔[2] مقالات الاسلامیین میں اشعری اصحاب الحدیث کامذھب ذکر کرکے فرماتے ہیں : عبداللہ بن سعید کے اصحاب بھی اکثر وہی باتیں کہتے ہیں جو ہم نے اصحاب الحدیث سے ذکر کی ہیں ۔[3]
[1] المنتظم:۱۴؍۲۹ [2] ابو الحسن اشعری نے ابن کلاب کامنہج اس لیے اختیار کیا کہ یہ معتزلہ کے منہج سےبہتر تھا اور عقیدہ اہل السنۃ کے زیادہ قریب تھا۔ اور اس لیے بھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کچھ صفات کا اثبات کرتے تھے جو عقل و فطرت کے سمجھ وفہم کے موافق ہوں۔ کچھ اور وجوہات کی بنا پر ابو الحسن نے ابن کلاب کا عقیدہ اختیار کیا اور یہ بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ الاشعری ابن کلاب سےزیادہ مشہور تھے اس لیے الاشعری عقیدہ کہا جاتا ہے نہ کہ کلابیہ عقیدہ ۔ (العقیدۃ الاسلامیۃ وتاریخہا ص: ۱۲۳۔ ۱۲۴) [3] مقالات :۱؍۳۲۵