کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 23
مستعجب ہوئے۔[1] معتزلہ سے ایک مناظرہ: ابوعلی جبائی سے ایک روز آپ کہنے لگے:شیخ!مومن ،کافر اور بچے کے متعلق آپ کا کیا موقف ہے؟جبائی نے جواب دیا :مومن اہل درجات میں سے،کافر ہلاک ہونے والوں میں سے اور بچہ اہل نجات میں سے۔شیخ نے کہا :اگر بچہ اہل درجات تک جانے کی کوشش کرے تو کیا یہ ممکن ہے ؟جبائی نے کہا :اس بچے سے کہا جائے گا ۔مومن نے یہ درجہ اطاعت سے پایا اور تم نے اطاعت نہیں کی۔شیخ نے کہا:اگر بچہ کہے :یہ تقصیر مجھ سے نہیں ۔اگر مجھے تو زندہ رکھتا تو میں بھی اسی طرح اطاعت کرتا ۔جبائی نے کہا :اللہ اس سے کہے گا :میں جانتا تھا کہ اگر تو باقی رہا تو نافرمانی کرے گا اور میں تجھے سزا دوں گا۔سو میں نے تیری مصلحت کا تکلیف تک پہنچنے سے پہلے خیال رکھا۔شیخ نے کہا :اگر کافر نے یہ کہہ دیا کہ اے رب! جس طرح تو نے اس کی مصلحت کا خیال رکھا میری مصلحت کا خیال کیوں نہیں رکھا ؟تو پھر یہ جواب سن کر جبائی لاجواب ہو گیا ۔ سبکی کا رد : یہ قصہ ذکر کرکے سبکی لکھتے ہیں :مشہور واقعہ ہے جیسے ہمارے شیخ ذھبی نے حکایت کیا ہے ۔اور جو ذھبی کی تقلید کرتے ہیں یہ قصہ ان کے ایک اصول کی جڑ کاٹتا ہے۔چونکہ وہ کہتے ہیں :اللہ کوئی بھی کام حکمت باعثہ اور مصلحت واقعہ کے بغیر نہیں کرتا ۔یہ معتزلہ کا مسئلہ ہے۔اگر ہمارے شیخ کو یہ علم ہوتا تو وہ یہ قصہ کبھی ذکر نہ کرتے ۔[2]
[1] ایک دوسرے دورمیں امام ابوالحسن اشعری کامعتزلہ کاشدت کے ساتھ رد کیااس کے باوجود وہ عقیدہ اہل السنہ پر گامزن نہیں ہوئے۔ انہوں نے اس دوسرےدور میں ابن کلاب کے عقیدہ اور فکر کو اتنا پھیلایا کہ لوگ انہی ہی کو ابن کلاب کے عقیدہ کا بانی کہنے لگے۔یہی وہ دور ہے جس کی آج کل کے اکثر اشاعرہ تبلیغ کرتےہیں۔ (العقیدۃ الاسلامیۃ وتاریخہا ص: ۱۲۵) [2] طبقات:۳؍۳۵۶