کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 156
کرتے کے مت عقل ہمیں بتاؤکہ آدمی نے کیا :اللہ کی قسم اگر اللہ نے چاہاتو میں کل تمہیں ضروردے دوں گا۔توکیا اللہ یہ چایئے والانہیں کہ یہ ایسے اس کا حق دے ؟وہ ہاں کہیں گے ؟
ہاں کیے بغیر کوئی چارہ نہ ہوگا۔اس پر انھیں کہاجائے گا:اگراللہ حق اداکرنے کوچاہتاہوتاتونہ دینے پریہ حانث ہوتاجس اگر وہ کیے کہ میں کل فجرطلوع ہونے پر تمہیں تمہاراحق ضرودوں گا۔پھر فجر طلوع ہوگی اور اس نے نہ دیا تو حانث ہوگا۔
۲۷۔آجال سے متعلق مسئلہ : [1]
ان سے کہاجائے گا ۔کیا للہ نے فرمایانہیں :
﴿ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ﴾ (الاعراف:۳۴)
’’جب وہ مدت پوری ہوجاتی ہے تو پھرایک کھڑی بھرکی نقد یم وتاخیر نہیں ہوتی ‘‘
اور فرمایا:
﴿ وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا﴾ (المنافقون :۱۱)
[1] ہیں کہ اگر ایمان میں شک کے لیے ہو تو ممنوع ہے اور اگر اپنے تزکیہ ،یاتبرک ،یا اس ڈرسیکہ ایمان مطلق پر ہم پنانہیں کا ربند ہیں یا نہیں ہوتو جائز۔
یہ مسئلہ معتزلہ کی وجہ سے پیداہوا۔ ان کے نزدیک چونکہ اللہ نے انسان کے افعال پیدانہیں کیے تو سوال پیداہواکہ کیا یہ کہا جاسکتاہے کہ آجال العباد مقروبہ ۔اگر یہ کہاجائے تو اس کا معنی یہ ہے کہ وہ شخص جس کو قتل کیا جاتاہے اس کا قتل اورقاتل کا عمل اللہ نے مقدر کیاہے ۔اور یہ ان کے قول کے خلاف ہے اس لیے اس سے فرار ہوتے ہوئے انھوں آجال کا مسئلہ کھڑاکیا ۔بعض اس کے قائل ہیں کہ اجل وہ ہے جو اللہ کے علم میں ہو کہ اگر اس کو کوئی قتل نہ کرے تو وہ فلاں وقت مرے گا؟پھر ان میں اختلاف ہے کہ ان میں سے کچھ اہل السنۃ کے موافق بھی ہیں کہ انسان کی موت اور اس کا سبب ہر چیز اللہ نے لکھ چھوڑی ہے اور کوئی بھی نہ تو اپنی اجل سے قبل فوت ہوتاہے اور نہ ہی بعدمیں ۔مقتول بھی اپنی اجل ہی سے قتل ہوتا ہے ۔اس بحث سے آپ کو بخوبی علم ہوگاکہ اصولی بدعات کتنی ہیں جزئیات میں جاری ہوئی میں اور ان اصولی بدعات کی وجہ کتنے مسائل کھڑے ہوتے ہیں جن میں انسان اپنے اصول کو بچانے کے لیے سفاہت کا شکار ہوجاتانسأل العامنیۃ۔