کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 148
﴿ يَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ﴾ (النساء:۷۸)’’ تو کہتے ہیں یہ آپ کے ہاں سے ہیں‘‘ یعنی تمہاری نحوست کی بدولت ۔ اللہ نے فرمایااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ﴿ قُلْ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَمَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا﴾ (النساء:۷۸) ’’آپ ان سے کہئے کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہوتاہے آخر ان لوگو ں کیاہوگیاہے کہ بات سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔‘‘ یعنی﴿ مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ ﴾ والی بات ہیں ۔ لیکن اللہ نے یہاں یہ حذف کردیاکیوں کہ ماقبل کلام اسی پر دلالت کرتاہے اور (یہ بات ہم نے اس لیے کی ہے )کیوں کہ قرآن آپس میں متناقض نہیں ہوتا۔ یہ جائز نہیں کہ وہ ایک آیت میں الکل من عنداللہ کہے اور دوسری من الکل نہیں من عنداللہ ہے کہ جو لوگوں کو پہنچاہے وہ اس کا غیرہے جو انہیں پہنچاہے اور یہ اس آیت سے ان کے تعلق کے بطلان کو واضح کرتے اور ان پر محبت واجب کرتا ہے ۔ ۱۴۔مسئلہ : اگر وہ ﴿ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾(الذاریات:۵۶)’’اور میں نے جن وانس کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ‘‘ کے متعلق سوال کریں تو اس کا جواب یہ کہ اللہ نے اس مراد کافروں کی بجائے مومن لیے ہیں ۔کیوں کہ اللہ نے ہمیں خبردی ہے کہ اس نے جہنم کے لیے اپنی بہت سی مخلوق پیداکی ہے پس جن کو اس نے جہنم کے لیے پیداکیا ہے شمار کیا ہے اور ان کے نا م جمع والدین کے نام لکھ لیے ہیں وہ ان کے علاوہ ہیں جن کو اس نے اپنی عبادت کے لیے پیداکیا ہے۔شمار کیا ہے اور ان کے نام جمع والدین کے نام لکھ دیے ہیں وہ ان کے علاوہ ہیں جن کو اس نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ۔ ۱۵۔تکلیف [1]سے متعلق ایک مسئلہ : ان سے کہا جائے گا : کیا اللہ نے کفار کو مکلف
[1] تکلیف مالایطاق کا مطلق قائل ہونا حادث قول ہے ۔جب کہ ابن تیمیہ نے القدر ص۲۹۷میں کہا ہے ۔یادرہے کہ جس پر انسان اس چیز کے ناممکن ہو نے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی ضد سے مشغول ہونے کی وجہ سے قادر نہیں ہوئے اس کا مکلف انسان کو بنانا جائز ہے ۔جیسے کا فر کو ایمان ملانے کا حکم ۔لیکن کیا یہ اس کو تکلیف مالایطاق کہا جائے گا؟اس میں اختلاف ہے ۔جمہوراس کو تکلیف مالایطاق تسلیم ہی نہیں کرتے ۔اور یہی صحیح ہے ملحض من تعلقات الحصیمی ۔