کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 113
كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ﴾(الشوری:۵۱)آیت صرف بشر سے خاص ہے غیر جنس بشر کو شامل نہیں اگر آیت بشر اور غیر بشر کو عام ہوتی تو یہ شبہ سے اور سننے والے پر شک داخل کرنے سے زیادہ بعید ہوتی کہ اللہ یوں کہتا : ﴿وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا ﴾جب کہ اللہ نے تمام اجناس کو آیت میں شامل نہیں کیا پس اس میں دلیل ہے کہ اس میں صرف بشر کو ہی خاص کیا ہے ۔[1] ۲۰: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ ﴾(الانعام:۶۲)پھر انھیں اللہ کی طرف لوٹایاجاتا ہے جو ان کا مالک ہے ۔اور فرمایا: ﴿ وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُوا عَلَى رَبِّهِمْ﴾(الانعام:۳۰)’’اور کاش آپ دیکھیں جب انھیں اپنے رب کے سامنے کھڑا کیا جائے گا ‘‘اور فرمایا: ﴿وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ﴾ (السجدۃ:۱۲)کاش آپ دیکھیں جب مجرم اپنے رب کے حضور سر جھکائے کھڑے ہوں گے اور فرمایا:﴿ وَعُرِضُوا عَلَى رَبِّكَ صَفًّا﴾ (الکھف:۴۸)’’اور وہ اپنے رب کے حضور صف بستہ پیش کیے جائیں گے ‘‘یہ تمام آیتیں اس پر دال ہیں کہ وہ مخلوق میں نہیں اور نہ مخلوق اس میں ہے۔بلکہ وہ عرش پر مستوی ہے ۔﴿سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا ﴾ ۔ان جھمیہ نے اس کی صفت بیان کرنے میں نہ توکوئی حقیقت ثابت کی ہے اور نہ اس کا ذکر کرکے اس کے لیے وحدانیت کو واجب کیا ہے ۔ان کے تمام کلام کا مآل تعطیل ہے ۔ان کا وصف بیان کرنا اس نفی پر دلالت کرتا ہے جس کو یہ تنزیہ نفی تشبیہ گمان کرتے ہیں ۔ہم اللہ سے ایسی تنزیہ
[1] جو لوگ اللہ کو عرش پر نہیں مانتے اور دیدار کی نفی کرتے ہیں ان کے نزدیک اللہ کو کوئی مخلوق نہیں دیکھتی ۔امام اشعری یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر اللہ کو کوئی بھی مخلوق دیکھ نہیں سکتی اور وہ کسی مخصوص جگہ پر نہیں کہ اس جگہ کی چیزیں اسے دیکھ سکیں توپھر آیت کو بشر سے خاص کرنے کی بجائے تمام اجناس کو شامل کیا جاتا تاکہ سننے والا شک میں نہ رہے۔لیکن آیت بشر کو خاص ہے اس سے علم ہوا کہ اللہ عرش پر ہے اور اس کو بعض مخلوقات دیکھتی ہیں اور اس کا منفصل حجاب ہے ۔افادہ شیخ الاسلام کما ذکرہ العصیمی