کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 112
الْمُنْتَهَى (14) عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَى (15) إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى (16) مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى (17) لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى ﴾(النجم:۸۔۱۸)’’پھر وہ نزدیک ہوا پھر اور آگے بڑھا پھر دو کمانوں کا یا اس سے کم فاصلہ رہ گیاپھر اللہ نے اپنے بندے کی طرف وحی کی جو کرنا تھی۔جو کچھ اس نے دیکھا تھا دل نے اسے جٹلایا نہیں اب کیا تم جھگڑا کرتے ہو جو انھوں نے دیکھا ہے؟اور ایک مرتبہ اور بھی انھوں نے اس کو دیکھا ہے۔سدرۃ المنتھی کے پاس جس کے پاس یہی جنت الماوٰی ہے جبکہ اس بیری پر وہ چھا رہا تھا جو (نور)چھا رہا تھا نہ (اس کی)نظر چندھیائی اور نہ آگے نکل گئی بلاشبہ اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں ‘‘
۱۶: اللہ عزوجل نے عیسی بن مریم سے فرمایا: ﴿إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ ﴾(آل عمران:۵۵)’’بیشک میں تجھے پورا لینے والا ہوں۔[1] اور اپنی طرف اٹھانے والاہوں ‘‘اور فرمایا: ﴿وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا () بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ﴾ (النساء:۱۵۷۔۱۵۸)’’اور یقیناً وہ انہیں قتل نہیں کر سکے تھے بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا تھا۔‘‘
۱۷: امت نے اس پر اجماع کیاہے کہ اللہ عزوجل نے عیسی علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھا لیا ہے۔
۱۸: تمام اھل اسلام کوئی مسئلہ درپیش ہونے کی صورت میں جب اللہ کی طرف راغب ہوں تو کہتے ہیں :یا ساکن العرش۔اسی طرح اھل اسلام کی قسموں میں سے ہے کہ وہ کہتے ہیں :’’والذی احتجب بسبع سموات۔
۱۹: مسئلہ استواء سے متعلق ایک یہ دلیل بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَمَا
[1] [اَلمُتَوَفِّی کا مصدر توفی اور مادہ وف ی ہے جس کااصل معنی پورا پورا لینے کے ہیں انسان کی موت پر جو وفات کا لفظ بولا جاتا ہے تو اسی لیے کہ اس کے جسمانی اختیارات مکمل طور پر سلب کر لیے جاتے ہیں اس اعتبار سے موت کے معنی کی مختلف صورتوں میں سے موت ایک صورت ہے ۔نیند میں بھی چونکہ انسانی اختیارات عارضی طور پر معطل کردیے جاتے ہیں اس لیے نیند پر بھی قرآن نے وفات کے لفظ کا اطلاق کیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ اس کا حقیقی اور اصل معنی پورا پورا لینے کے ہی ہیں ۔متوفیک میں یہ اسی اپنے حقیقی اور اصلی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی اے عیسی !میں تجھے یہودیوں کی سازش سے بچا کر پورا پورا اپنی طرف آسمانوں پر اٹھا لوں گا چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔(تفسیر احسن البیان ص:۱۲۶)]