کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 111
ینفجر الفجر)) [1]
۱۴:اللہ عزوجل کے عرش پر مستوی ہونے پر یہ ادلہ بھی ہیں ۔اللہ نے فرمایا: ﴿ يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ﴾(النحل:۵۰)’’وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں جو ان کے اوپر ہے ‘‘اور فرمایا: ﴿تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ ﴾(المعارج:۴)’’جس کی طرف روح اور فرشتے چڑھتے ہیں ‘‘اور فرمایا: ﴿ ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ ﴾(فصلت:۱۱)’’پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو وہ اس وقت دھواں تھا‘‘اور فرمایا: ﴿ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ الرَّحْمَنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا﴾ (الفرقان:۵۹)’’پھر عرش پر بلند ہوا ،وہی رحمن ہے اس کا حال کسی با خبر سے پوچھ لیجیے‘‘اور فرمایا: ﴿ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ مَا لَكُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ﴾ (السجدہ:۴)’’پھر عرش پر بلند ہوا اس کے سوا تمھارا نہ کوئی سر پرست ہے اور نہ سفارشی‘‘یہ سب اس پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں عرش پر ہے۔اور باتفاق الناس آسمان زمین نہیں ۔سو اس میں دلیل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اپنی وحدانیت میں منفرد عرش پر مستوی ہے جیسا کہ اس نے اپنی صفت بیان کی ہے۔
۱۵: اس مسئلہ پر یہ آیات بھی دال ہیں فرمایا: ﴿وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا﴾(الفجر:۲۲)’’اور آئے گا آپ کا رب اس حال میں کہ فرشتے صف بستہ ہونگے‘‘اور فرمایا: ﴿هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ ﴾(البقرہ:۲۱۰)’’یہ لوگ اس انتظار میں ہیں کہ اللہ تعالیٰ بادلوں کے سائے میں ان کے پاس آئے‘‘اور فرمایا:
﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى (8) فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى (9) فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى (10) مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى (11) أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَى (12) وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى (13) عِنْدَ سِدْرَةِ
[1] صحیح مسند احمد باختلاف یسیر فی الالفاظ:۱۶۲۱۵،المعجم الکبیر :۵؍۵۰،التوحید لابن خزیمہ:۱؍۳۱۲
[اس طرح کی بکثرت روایات امام صابونی نے اپنی کتاب عقیدۃ السلف و اصحاب الحدیث میں جمع کردی ہیں جو چند ماہ قبل سلفی ریسرچ انسٹیٹیوٹ برمنگھم،لاہور کی طرف سے اردو ترجمہ ،تحقیق اور شرح کے ساتھ شائع ہو چکی ہے ۔]