کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 108
عرش آسمانوں کے اوپر ہے: ۲: عرش چوں کہ آسمانوں کے اوپر ہے اس لیے فرمایا: ﴿ أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ ﴾ (الملک:۱۶)کیو نکہ وہ عرش پر مستوی ہے جو آسمانوں کے اوپر ہے،اور جو بھی بلند ہو وہ آسمان ہے ۔پس عرش آسمانوں کا سب سے بلند حصہ ہے ۔ مَنْ فِي السَّمَاءِ سے جمیع آسمان مراد نہیں بلکہ وہ عرش مراد ہے جو آسمانوں سے اوپر ہے۔ ۳: دیکھتے نہیں اللہ نے آسمانوں کا ذکر کرکے فرمایا: ﴿ وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا ﴾(نوح:۱۶)’’اور اس نے ان میں چاند کو روشن بنایا ‘‘اس سے اللہ نے یہ مراد نہیں لیا کہ چاند ان سب میں ہے ،اتنا بڑا ہے کہ ان سب کو اپنے آپ سے پُر کردیتا ہے۔ ۴: ہم مسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ دعاکے وقت اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں کیو نکہ اللہ عز وجل عرش پر مستوی ہے جو آسمانوں کے اوپر ہے۔اگر وہ عرش پر نہ ہوتا تو لوگ عرش کی طرف ہاتھ بلند نہ کرتے جس طرح وہ دعا کے وقت زمین کی طرف ہاتھوں کو نیچا نہیں کرتے ۔[1] ۵: معتزلہ ،جھمیہ اور حروریہ میں سے کہنے والوں نے کہا ہے کہ استوی کا معنی ہے استولی یعنی وہ مالک ہوا اور غالب ہوا۔اور اللہ عزوجل ہر جگہ ہے ۔ان لوگوں نے اھل حق کے بر خلاف اس بات کا انکار کیا ہے کہ اللہ عرش پر ہو۔بلکہ استواء کو انھوں نے قدرت کی طرف پھیر دیا ہے ۔ ۶: اگر بات ایسے ہی ہوتی جیسا انھوں نے ذکر کیا ہے تو عرش اور ساتوں زمین میں فرق نہ ہوتا۔کیوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔زمین اور حشوش اور جو کچھ جہان میں ہے اس سب پر قادر ہے۔
[1] ابوالعلاء الھمذانی نے اس دلیل سے ابوالمعالی الجوینی کا رد کیا ہے اور وہ فرمانے لگے کہ مجھے ھمذانی نے حیران کر دیا کہ واقعی جب ہم دعا مانگتے ہیں تو ہمارے ہاتھ آسمان کی طرف ہی اٹھتے ہیں ۔اشاعرہ کا آسمان کو محض قبلہ بنانا باطل ہے کیونکہ قبلہ طبع سے معلوم نہیں ہوتا،جبکہ دعا کے لیے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھانا انسانوں کی فطرت میں ہے ۔جیسا کہ اللہ نے فرمایا : ﴿ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ﴾