کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 105
تمہارا کیا موقف ہے ؟تواس سے کہا جائے گا:
قرآن حقیقاًپڑھا اور تلاوت کیا جاتا ہے ۔یہ جائز نہیں کہ کہا جائے اس کا لفظ کہا جاتاہے ،کیونکہ قائل کے لیے جائز نہیں کہ وہ کہے کہ ملفوظ بہ کلام ہے۔کیونکہ عرب میں سے جب کوئی کہے :’’لفظت باللقمۃ من فی‘‘ تو اس کا معنی ہوتا ہے میں نے لقمہ کو اپنے منہ سے پھینک دیا ۔اللہ عزوجل کے کلام کو ملفوظ بہ نہیں کہا جاتا۔یقرأ،یتلی،یکتب،یحفظ جیسے الفاظ بولے جاتے ہیں ۔لفظنا باالقرآن ایک قوم نے کہا ہے ۔وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ قرآن مخلوق ہے ۔وہ اس کو مخلوق کہنے کے قول و بدعت کو مزین بناتے ہیں جو ان کی مراد سے ناواقف ہے اس پر تدلیس کرتے ہیں ۔جب ہمیں ان کی مراد کا علم ہوا ہم نے ان پر نکیر کی ،یہ بھی جائز نہیں کہ کہا جائے قرآن میں سے کچھ مخلوق ہے ،کیونکہ مکمل قرآن غیر مخلوق ہے ۔
۷: اگر کوئی کہے کہ کیا اللہ نے فرمایا نہیں :﴿ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ﴾(الانبیاء:۲)’’جب بھی ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت آتی ہے اسے سن تو لیتے ہیں مگر کھیل کود میں پڑے رہتے ہیں ۔‘‘اس سے کہا جائے گا :جو ذکر اللہ نے مراد لیا ہے وہ قرآن نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام و وعظ مراد ہے ۔اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا :﴿ وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ (الذاریات:۵۵) اور فرمایا:﴿ ذِكْرًا (10) رَسُولًا﴾(الطلاق:۱۰۔۱۱)اللہ نے رسول کو ذکر کا نام دیا ۔اور رسول محدث ہے،اللہ نے ویسے بھی فرمایا ہے :﴿ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ﴾ (الانبیاء:۲)’’جب بھی ان کے پاس ان کے رب
[1]
[1] (حفاظت کے لیے اس ذومعنی کلمہ کو کہنے ہی سے منع کردیا ۔امام بخاری رحمہ اللہ سے جو یہ منسوب ہے کہ انھوں نے لفظی بالقرآن مخلوق کہا ۔تو اس کی خود امام بخاری نے نفی کی ہے ،جیسا کہ تاریخ بغداد وغیرہ میں ثابت ہے ۔امام بخاری نے یہ کہا تھا کہ ہمارا عمل مخلوق ہے ۔اسی مسئلہ کی وجہ سے امام بخاری اور دیگر شیوخ میں چپقلش ہوگئی اور امام بخاری نے ’’خلق افعال العباد ‘‘کتاب لکھی۔