کتاب: الابانہ عن اصول الدیانہ - صفحہ 104
لوگوں کا اختلاف ہے تم اس میں توقف کرو۔اگر تمہارے لیے مسلمانوں میں سے بعض کے موقف کو اپنانا جائز ہے جب اس موقف پر دلیل ہو تو ان ادلہ کو مد نظررکھتے ہوئے جو ہم نے ذکر کی ہیں تم کیوں نہیں کہتے کہ قرآن غیر مخلوق ہے ۔
۵: اگر کوئی کہے :ہمیں بتاؤ کیا تم مانتے ہو کہ کلام اللہ لوح محفوظ میں ہے ؟اس کو کہا جائے گا؟بالکل ہم یہی کہتے ہیں کیونکہ اللہ نے فرمایا:﴿ بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ (21) فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ ﴾(البروج:۲۱۔۲۲)’’بلکہ یہ قرآن بلند پایہ جو لوح محفوظ میں (درج )ہے۔‘‘پس قرآن لوح محفوظ میں ہے اوران لوگوں کے سینوں میں بھی ہے جو علم دیے گئے ہیں ۔اللہ نے فرمایا :﴿ بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ ﴾(العنکبوت:۴۹)’’بلکہ وہ واضح آیات ہیں ان لوگوں کے سینے میں جو علم دیے گئے ہیں ۔‘‘اس کی زبانوں کے ذریعے تلاوت بھی کی جاتی ہے ۔اللہ نے فرمایا :﴿ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ (16) إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴾ القیامۃ:۱۶۔۱۷)’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وحی کو جلدی یاد کرلینے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیجیے ۔سو اس کو دل میں جمع کرنا اورزبان سے پڑھوانا ہمارے ذمہ ہے۔‘‘
قرآن حقیقتا مصاحف میں مکتوب ہے ۔حقیقتا ہمارے سینوں میں محفوظ ہے ۔حقیقتا ہماری زبانوں سے متلو ہے ۔حقیقتا ہم اس کو سنتے ہیں ،جیسا کہ اللہ نے فرمایا:﴿ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ﴾(التوبۃ:۶)’’تو اسے پناہ دیجیے حتی کہ وہ (اطمینان سے)اللہ کا کلام سن لے‘‘[1]
۶: اگر کوئی کہے کہ مسئلہ ’’لفظ بالقرآن ‘‘[2]کے متعلق بتاؤ کہ اس کے بارے میں
[1] اس کے ساتھ یہ بھی ذہن میں رہے کہ بندوں کے افعال،سیاہی ،ورقے وغیرہ مخلوق ہیں ۔اس پر اہل السنہ کا اجماع ہے ۔جو اہل الحدیث سے نقل کرتے ہیں کہ وہ مداد ،وغیرہ کے قدیم ہونے کے قائل ہیں وہ محض جھوٹ بولتے ہیں ۔
[2] جب ہم لفظنا بالقرآن مخلوق کہتے ہیں تو اس میں دواحتمال ہوتے ہیں :ایک یہ کہ ہمارا عمل جو قرآن پڑھنے پر مشتمل ہے اور ہماری زبان کی حرکت ہے یہ مخلوق ہے ۔دوسرا احتمال یہ ہوتا ہے کہ ملفوظ یعنی قرآن مخلوق ہے ۔اور یہ معنی باطل ہے ۔جہمیہ تلبیس کے لیے یہ کہا کرتے تھے ۔اسی لیے ائمہ نے ان پر سخت نکیر کی ۔اور قرآن کی ( (