کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 99
مقصود سامنے آجاتاہے اور فرماتے ہیں :
’’ اس شرعی اور قانونی ضرورت کو پورا کرنے کی ایک شکل یہ ہے کہ مطلقہ عورت کا دوسرے شخص سے اس شرط پر عارضی نکاح ہوکہ وہ شخص ہم بستری کے بعد اس عورت کو طلاق دےدے گا۔
حلالے کا شرعی اصولوں کے تحت جائزہ لیاجائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ طلاق کی شرط پر نکاح کرنے سے نکاح تو ہوجاتاہے اگرچہ ایسی شرط لگانا صحیح نہیں ہے، پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کے لیے شریعت نے دوسرے نکاح کی جو شرط لازمی قرار دی ہے وہ پوری ہوجاتی ہے لہٰذا عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی سے پہلے شوہر سے نکاح میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں رہتی ۔‘‘
ہم فاضل مفسر یا مفسرین سے پوچھتے ہیں کہ پہلے حلالہ شرعیہ کی جو تعریف آپ نے کی ہے، اگر وہ صحیح ہے اور یقینا صحیح ہے سوائے ایک لفظ عارضی کے۔ اور حلالے کا شرعی اصولوں کے تحت جائزہ لینے سے آپ نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حلالۂ غیر شرعیہ یا حلالۂ ملعونہ سے بھی نکاح ہوجاتاہے تو پھر حلالۂ شرعیہ اور حلالۂ غیر شرعیہ میں کوئی فرق تو نہ رہا اور وہ کون سے شرعی اصول ہیں کہ ان سے حرام بھی حلال ہوجاتاہے؟ اور کیا حرام طریقے سے ایک دوسرے جائز کام کے شرعی اور قانونی تقاضے پورے ہوجاتے ہیں ؟
اگرایسا ہے تو پھر حلالۂ مروجہ کو لعنتی فعل کیوں قرار دیاگیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس لعنت والے فرمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایسا نکاح منعقد ہی نہ ہو اگر اس لعنتی طریقے سے بھی نکاح صحیح ہوجاتاہے تو پھر اس کو لعنت والا کام ہی کیوں قرار دیاگیاہے؟ اس کا مطلب تو پھر یہ ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نعوذ باللہ) ایک نہایت آسان طریقے پر خوامخواہ بندباندھ دیا ہے گوامتی کہلانے والوں نے بہ لطائف الحیل اس بند کو فقہی موشگافیوں کے ذریعے سے توڑ دیاہے۔
امت کے خیر خواہ تو یہ حیلہ ساز فقہاء اور ان کے پیروکار اصحاب جبہ ودستار مفتیان کرام اور شیوخ الحدیث ہوئے نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس بے غیرتی والے کام پر اس کو لعنتی قرار دے کر بند باندھا لیکن کہنے والوں نے کہا : چند راتوں کی بے غیرتی سے بھی شرعی اور قانونی ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔