کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 98
مولانا رشید احمد گنگوہی، اس سوال کے جواب میں کہ اگر ایک ماہ بعد طلاق دینے کی شرط پر نکاح ہواتو یہ نکاح صحیح ہے یا نہیں ؟ فرماتے ہیں :’’ نکاح بشرط طلاق بعد ایک ماہ تو بحکم متعہ کے حرام ہے اگر زبان سے یہ شرط کی جاوے ، اور جو دل میں ارادہ ہے عقد میں ذکر نہیں ہوا تو نکاح صحیح ہے۔ ‘‘[1]
اور زمانۂ حال کے ایک اور دیوبندی مفسر قرآن جن کی مفصل تفسیر’’روح القرآن‘‘ کے نام سے چھپ رہی ہے ، بہ نگرانی مدیر جامعۃ البنوریہ العالمیہ (کراچی) یہ صاحب اپنی تفسیر میں زیر بحث آیت کی وضاحت میں بعنوان’’حلالۂ شرعیہ کی وضاحت‘‘ لکھتے ہیں :
’’حلالہ کے معنی ہیں طلاق والی عورت کا(عارضی) نکاح کرنا تاکہ دوسرے شخص سے نکاح کے بعد وہ عورت اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرسکے۔‘‘
قرآن مجید کی صراحت ووضاحت کے بعد تین طلاق والی مطلقہ عورت کے اپنے سابقہ شوہر سے دوبارہ نکاح کی ایک صورت باقی رہ جاتی ہے کہ عدت کے بعد اس عورت کا کسی دوسرے شخص سے نکاح ہو اور گھر بسانے کے بعد دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا دوسرا شوہر طلاق دےدے اور عدت کے بعد اگر سابقہ شوہر اور یہ عورت دوبارہ نکاح کرنے پررضا مند ہوں تو دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں ۔
تبصرہ
حلالہ شرعیہ کی وضاحت موصوف نے صحیح کی ہے ، لیکن بریکٹ میں ’’عارضی‘‘ کا اضافہ یہاں کس طرح صحیح ہوسکتاہے؟ حلالہ شرعیہ میں تو نکاح عارضی ہوتا ہی نہیں ہے، اس میں تو نکاح دوسرے شوہر سے بھی مستقل طور پر آباد رہنے ہی کی نیت سے ہوتاہےاگر یہ نیت دوام نہیں ہوگی تو وہ حلالہ شرعیہ ہی نہیں ہوگا، وہ تو حلالہ مروجہ ملعونہ ہی ہوجائے گا۔
لیکن چونکہ تقلید کا حسین طوق ان کے بھی زیب گلو ہے ،اس لیے ذہن میں یہی سوچ کار فرماہے کہ بالآخر حلالہ مروجہ کا بھی جواز پیش کرناہے، اس لیے موصوف نے حلالہ شرعیہ کی تعریف میں بھی’’عارضی‘‘ کے لفظ کو بریکٹ میں لکھ دیا ہے تاکہ اگلے پیرے میں ،جس میں حلالہ غیر شرعیہ کو ثابت کرناہے، کچھ سہارا مل جائے کیونکہ اصل مقصود تو اسی کا اثبات ہے، باقی وضاحتیں تو مجبوری ہیں ۔ بہر حال اگلے پیرے میں اصل
[1] تالیفات رشیدیہ مع فتاوی ، ص:383، ادارہ اسلامیات ، لاھور 1992ء