کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 97
اسی لیے آگے فرماتے ہیں : [وقیل المکروہ اشتراط الزوج بالتحلیل فی القول لا فی النیۃ ، بل قد قیل : إنہ مأجورٌ بالنیۃ لقصد الاصلاح ] ’’اور کہاگیا ہے کہ زبان سے شادی کے وقت حلالے کی شرط کرنا مکروہ ہے ، لیکن دل میں نیت ہوتو مکروہ نہیں ۔ بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیت کرکے حلالہ کرنے والا ماجور ہے اس لیے کہ اس کا مقصد اصلاح ہے ۔‘‘ [1] یہ وہی باتیں ہیں جن کا بے حقیقت اور خلاف منشائے شریعت ہونا ہم واضح کر آئے ہیں لیکن تقلید کی عینک کی وجہ سے ان کو نظر نہیں آرہی ہیں ۔ بھلا ایک لعنتی اور حرام کام بھی اچھی سی نیت کرلینے سے حلال بلکہ باعث اجر ہوسکتاہے؟ نہیں ، ہرگز نہیں !۔ کوئی بھی لعنت والا کام نہ حلال ہوسکتاہے اور نہ باعث اجر اور نہ اس کو کوئی قانونی وشرعی حیثیت ہے کہ اس سے شرعی مقاصد حاصل ہوسکیں جیسا کہ اس لعنتی کام سے زوج اول کے لیے دوبارہ نکاح کا جواز ثابت کیا جارہاہے۔ زوج اول کے لیے دوبارہ نکاح کے جواز کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ صرف اور صرف وہ حلالۂ شرعیہ ہے جس کی وضاحت قرآن وحدیث میں ملتی ہے۔ اس کے برعکس حلالۂ مروجہ(فقہ حنفی والا) یہ زنا کاری ہے۔ کرائے کے سانڈ کے پاس بھی وہ عورت جتنے دن رہے گی، دونوں عند اللہ زناکاررہیں گے، پھر زوج اول کے ساتھ اس عورت کے دوبارہ تعلق کی صحیح شرعی بنیاد چونکہ نہیں ہے اس لیے یہ دونوں بھی عمربھرزنا کار ہی رہیں گے۔ اعاذنا اللہ منھا فتاوی دار العلوم دیوبند میں ایک سوال کے جواب میں حلالے کا شرعی طریقہ بتلایا گیا ہے اور شوہر ثانی سے شرط طلاق کو مکروہ تحریمی لکھا گیا ہے لیکن پھر مفتی صاحب کی رگ حنفیت پھڑکی اور درّ مختار(فقہ حنفی کی معتبر کتاب) کے حوالے سے یہ عربی عبارت نقل کر دی جس کا مطلب وہی ہے کہ اگر دل میں دونوں کی نیت (عارضی نکاح کرکے چھوڑ دینے کی) ہے تو پھر یہ نکاح مکروہ نہیں ہے بلکہ آدمی قصد اصلاح کی وجہ سے ماجور ہوگا۔[2]
[1] الحواشی المفیدۃ علی جامع الترمذی ، ص:341، طبع مکتبہ رحمانیہ اردو بازار ، لاھور [2] فتاوی دار العلوم دیوبند ، عزیز الفتاوی ، ج:1،ص:512، دار الاشاعت کراچی ، 1976ء