کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 96
ان کے اس رویے اور اس مثال سے اول الذکر دونوں دعوؤں کی بابت آسانی سے فیصلہ کیا جاسکتاہے کہ ان میں کچھ حقیقت بھی ہے یا محض غلو عقیدت کا مظاہرہ اور بے جامبالغہ آرائی۔ البتہ تیسرا دعویٰ سوفی صد حقیقت پر مبنی ہے کہ ان کی تدریس حدیث کا انداز اور مقصد حنفی فقہ کا اثبات تھا اور اس کے لیے یہ ضروری تھا کہ صحیح احادیث کو کسی نہ کسی طرح مجروح ومطعون اورضعاف ومراسیل اور منقطع روایات کو قابل حجت ثابت کیا جائےچنانچہ یہی کچھ انہوں نے بھی کیا، ان سے پہلے مولانا احمد علی سہارنپوری،محشی، صحیح بخاری، مولانا محمود الحسن اور مولانا رشید احمد گنگوہی وغیرہ نے بھی یہی کیا اور ان کے بعد ہر حنفی مدرسے کا شیخ الحدیث مسند درس پر بیٹھ کر تدریس حدیث کے نام پر حنفیت ہی کی خدمت ، یعنی نصوص قرآن وحدیث کو توڑ مروڑ کر ، ان کی باطل تأویل اور دورازکارتوجیہہ کرکے حنفی فقہ کے بے سروپا مسائل کو صحیح باور کرارہاہے جیسا کہ مولانا تقی عثمانی صاحب کے درسی افادات(درس ترمذی) بھی اسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے ! مولانا احمد علی سہارنپوری اسی حدیث محلل کے بارے میں فرماتے ہیں ۔ ہم ذیل میں ان کی عربی عبارت کا ترجمہ درج کرتےہیں : ’’پہلا لفظ محلّل (اسم فاعل، حلالہ کرنے والا) وہ شخص ہے جس کے ساتھ کسی عورت نے تحلیل کی غرض سے شادی کی۔ دوسرا لفظ مفعول(محلّل لہ) وہ پہلا شوہر ہے جس کی خاطر تحلیل واقع ہورہی ہے۔ پہلا شخص (محلّل ، حلالہ کرنے والا) اس لیے ملعون ہے کہ اس نے جدائی(طلاق) کے ارادے سے نکاح کیا حالانکہ نکاح تو(بیوی کو) ہمیشہ رکھنے کے لیے مشروع کیاگیا ہے پس اس کی حیثیت کرائے کے سانڈ کی مثل ہوگئی جیسا کہ(دوسری) حدیث میں آیا ہے اور دوسرا اس لیے ملعون ہے کہ وہ اس قسم کے نکاح کا سبب بنا ہے اور مراد( اس لعنت سے) ان دونوں افراد کی کمینگی(خساست) کا اظہار ہے اس لیے کہ طبع سلیم ان دونوں کے فعلوں (بے غیرتی والے کاموں ) سے نفرت کرتی ہے لعنت کی حقیقت مراد نہیں ۔‘‘ خود فرمائیے! کہ حدیث کے الفاظ کی تشریح بھی خوب ہے اور دونوں کے فعل کو کمینگی اور طبع سلیم کے خلاف بھی تسلیم کررہے ہیں لیکن پھر حنفیت کا رنگ غالب آجاتاہے اور کہتے ہیں کہ لعنت کی حقیقت مراد نہیں ہے۔ پتہ نہیں ، لعنت کی حقیقت، علمائے احناف کے نزدیک کیا ہے ؟ دراصل یہ الفاظ حنفیت کے اس رنگ کے غماز ہیں جو صبغۃ اللہ کے مقابلے میں ان پرچڑھا ہوا ہے۔