کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 95
ضرورت ہی کیا ہے؟ فقہ حنفی پڑھ لینا ہی کافی ہے ۔ مولوی صاحب جزبز تو ہوئے مگر کچھ بولے نہیں ۔[1]
اور اس حقیقت کا اعتراف آخری عمر میں خود مولانا انورشاہ کشمیری نے بھی کیا ہے اور اپنے اس طریق تدریس حدیث کو ’’عمر بربادکردی‘‘ سے تعبیر کیاہے۔ مولانا کشمیری کی یہ روایت خود مولانا تقی عثمانی صاحب کے والد محترم مفتی محمد شفیع مرحوم نے اپنی ایک تقریب میں بیان کی ہے جو ’’وحدت امت‘‘ کے نام سے چھپی ہوئی ہے۔ مولانا کشمیری مرحوم کی بھی ایک مثال بطور نمونہ ملاحظہ فرمالیجئے۔ ان کے ترمذی کے درسی افادات’’العرف الشذی‘‘ کے نام سے چھپے ہوئے ہیں ۔ اس میں علامہ کشمیری نے بھی حنفیہ کے زیر بحث حلالہ کے جواز میں اسی ابن سیرین کی روایت سے استدلال کیا ہے۔[2]حالانکہ یہ سخت منقطع روایت ہے۔
حالانکہ علامہ کشمیری کی بابت علمائے احناف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک تو ان جیسا محدث اس دور میں پیدا نہیں ہوا۔ دوسرے، علوم حدیث اور فن اسماء الرجال میں ان کو اتنی مہارت حاصل تھی کہ انہوں نے احادیث میں جمع وتطبیق کا بے مثال کارنامہ سرانجام دیا اور ہرہر حدیث کو اس کا اصل مقام عطا کیا تیسرے، ان کے درس حدیث کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں ہر حدیث حنفی مذہب کی تائید کرتی نظر آتی تھی۔ خود ان کا یہ مقولہ بڑے فخر سےنقل کیا جاتاہے کہ ’’میں نے حنفی مذہب کو اتنا مضبوط کر دیا ہے کہ سو سال تک اس کو کوئی متزلزل نہیں کرسکتا۔‘‘
لیکن مسئلہ زیر بحث میں علامہ کشمیری نے بھی حدیث [لعن اللّٰه الْمحلّ والمحلّل له ] حدیث میں وارد لعنت کو شرط تحلیل کے ساتھ خاص کرکے حلالۂ ملعونہ کوبہ نیت تحلیل نہ صرف جائز بلکہ باعث اجربھی قرار دیا ہے۔ دوسرے ، صحیح حدیث وآثار صحابہ کے مقابلے میں ایک منقطع اثر سے استدلال کیا ہے۔ ایسے شخص سے کیا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ نصوص قرآن وحدیث کے ساتھ حق وانصاف کا معاملہ کرے گا؟ بالخصوص جبکہ وہ خود بھی امام ابو حنیفہ کی تقلید محض پر فخر کرتاہو۔ علامہ کشمیری کے صاحبزادے ان کا مقولہ نقل فرماتے ہیں ’’میں کسی فن میں کسی کا مقلد نہیں ہوں خود اپنی رائے رکھتا ہوں بجز فقہ کے (اس میں ) ابو حنیفہ کی تقلید محض کرتاہوں ۔‘‘ [3]
[1] ذکر آزاد،تالیف مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی ، ص:26۔27
[2] العرف الشذی، ص:263، مکتبہ رحیمیہ، دیوبند
[3] رسالہ سہ ماہی ’’حسن تدبیر‘‘دہلی، امام العصر نمبر ، فروری ، 2010، ص: 50۔45