کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 94
مروڑ کر اور حق وانصاف کا خون کر کے ’’حنفیت‘‘ کے قالب میں ڈھالا جاتاہے اور یہ روش کسی ایک مدرسے یا کسی ایک شیخ الحدیث کی نہیں ہے بلکہ قرآن وحدیث کو تأویلات رکیکہ کی سان پر چڑھانے کا یہ سلسلہ اور حق وانصاف کا خون کرنے کا یہ رویہ تب سے جاری ہے جب سے ڈیڑھ صدی قبل دار العلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیاہے۔ دارالعلوم دیوبند کے اکابر بھی یہی کچھ کرتے رہے ہیں جس کے نمونے ان کے مطبوعہ درسی افادات میں (درس ترمذی ہی کی طرح) دیکھے جاسکتے ہیں ، اور ان کے فیض یا فتگان پاک وہند کے حنفی مدارس میں یہی کچھ کررہےہیں اور قریب سے مشاہدہ کرنے والوں کے مشاہدات وتأثرات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ہم مثال کے طور پر فی الحال ایک واقعہ پیش کرتے ہیں ، ورنہ یہ قصۂ درد بھی بڑا طویل ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کے دست راست مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی مرحوم لکھتے ہیں : ’’ جب میں مصر سے(تعلیم حاصل کرکے) واپس لوٹا تو علم حدیث سے بالکل ناآشناتھا۔ مصر میں حدیث کی تعلیم کا رواج ہی نہ تھا اور مجھے بڑی طلب تھی۔ ہندوستان کے رسمی مولویوں پر بھروسہ نہ تھا اور کسی واقعی محدث کی جستجو تھی ۔ اسی حالت میں مولانا عین القضا صاحب (لکھنؤ) سے ملاقات ہوئی ، ان کے پاس ایک اور مقطع شکل کے مولوی صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے مولانا سے عرض کیا کہ علم حدیث سے محروم ہوں ، فرمایئے کہاں اور کس سے یہ نعمت مل سکتی ہے؟ مولانا نے کوئی جواب نہ دیا،مسکراتے رہے۔ لیکن مولوی صاحب بول اٹھے: حدیث کی طلب ہے تو دیوبند جایئے، حضرت مولانا انورشاہ صاحب وہاں موجود ہیں ۔ ندوہ میں بچپن گزارا تھا، اس لیے دیوبند کے خلاف طبیعت میں تعصب موجودتھا پھر علامہ رشید رضا مرحوم کے درس نے مسلک سلف کا قائل کردیا تھا اس لیے سوال کیا’’مولانا انور شاہ صاحب کا طریق درس کیا ہے؟ ‘‘ مولوی صاحب نے برجستہ جواب دیا: ’’میاں کیا کہنا ان کے درس کا ،فقہ حنفی کو حدیث سے اس طرح ثابت کر دیتے ہیں کہ بس عش عش کرتے رہو۔‘‘ یہ سن کر میں سناٹے میں پڑگیا اور مولانا عین القضا صاحب کو طالب رحم نگاہوں سے دیکھنے لگا۔پھر مولوی صاحب سے عرض کیا ’’اگر حدیث اسی لیے ہے کہ فقہ حنفی کو ثابت کیا جائے تو حدیث پڑھنے کی