کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 93
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ بیان کررہے ہیں ؟ اس اعتبار سے یہ روایت سخت منقطع ہے۔ اس کے برعکس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ صحیح سند سے ہم بیان کر آئے ہیں جس میں انہوں نے فرمایا کہ جو بھی حلالہ کرنے والا مرد اور وہ عورت جس سے حلالہ کیا گیاہو ، میرے پاس لائے جائیں گے تو میں ان دونوں کو رجم کی سزا دوں گا۔ اب اہل انصاف، جن کے دل میں ذرا بھی اللہ کا خوف ہے ، فیصلہ کرلیں کہ ایک بے سروپا (سخت منقطع) روایت میں بیان کردہ بات صحیح ہے یا صحیح السند روایت میں بیان کردہ فیصلہ؟ اور جرح وتعدیل کے میزان میں سیدنا عمر کا کونسا فیصلہ صحیح ہے؟ نکاح حلالہ کے زناکاری ہونے کا یا نکاح حلالہ سے نکاح کے منعقد ہوجانے کا ؟ یہ دونوں فیصلے ایک دوسرے کی نقیض اور یکسر متضاد ہیں یہ تو قطعاً نہیں ہوسکتاکہ بیک وقت دونوں کی نسبت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف صحیح ہو ؟ ان میں سے یقیناً ایک ہی فیصلہ صحیح ہے ، وہ کونسا ہے ، صحیح السند والا یا منقطع السند والا؟ صاحب انصاف سے انصاف داد طلب ہے یہ سات ’’دلیلیں ‘‘ تھیں جو مولانا تقی عثمانی صاحب نے ایک صریح حرام کو حلال کرنے کی اور زناکاری کو نکاح ثابت کرنے کے لیے پیش فرمائیں ہیں اور یہ ان کی مطبوعہ کتاب’’درس ترمذی‘‘ میں موجود ہیں ، الحمد للہ ہم نے ان کی حقیقت واضح کردی ہے جس سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ احناف کا ’’نکاح حلالہ‘‘ اور شیعوں کا’’نکاح متعہ‘‘ اصل میں دونوں ایک ہیں اور مذہب کے نام پر زناکاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی حنفی عالم اپنی بیوی،بیٹی یا بہن کو کبھی حلالہ کے لیے کسی مرد کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا اور اسی طرح کوئی شیعہ ذاکر اور مجتہد ، چاہے وہ متعہ کے کتنے بھی فضائل بیان کرے، اپنی بیٹی،بیوی یا بہن کو’’نکاح متعہ‘‘ کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ کیونکہ یہ دونوں نکاح ، نکاح نہیں بے غیرتی کے مظاہر ہیں ۔ ایک اور حقیقت کی وضاحت! حنفی مدارس میں تدریس حدیث کا انداز اور مقصد مولانا تقی عثمانی صاحب کے درسی افادات جو ’’درس ترمذی‘‘ کے نام سے شائع ہوئے ہیں ، ان سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ احناف کے مدارس میں ’’تدریس حدیث‘‘ کے دوران کس طرح احکام حدیثیہ کو توڑ