کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 92
صراحت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی لیکن سائل اعلان کرنا شروع کردے کہ مفتی صاحب نے میرے نکاح کو جائز قرار دےدیا ہے۔ کیا سائل کاایسا سمجھنا صحیح ہے؟ یقینا نہیں ۔ آپ سیدنا عبد اللہ بن عمر والی روایت دوبارہ پڑھ لیں ، اس میں صرف یہ ہے کہ نکاح حلالہ زنا ہے،ا س سے نکاح کا جواز کس طرح ثابت ہوجائے گا؟ آپ افتاء ودرس حدیث کی نہایت اونچی مسند پر بیٹھ کرزناکاری کے فتویٰ ابن عمر سے، جو حرمت نکاح میں صریح ہے،جواز نکاح کا اثبات فرما رہے ؟﴿ إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ﴾ [ص: 5]
7. ساتویں آخری دلیل : مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں :
’’نکاح بشرط التحلیل ناجائز ہونے کے باوجود منعقد ہوجاتاہے،اس پر حنفیہ کی دلیل مصنف عبد الرزاق میں سیدنا عمر کا ایک فتوی ہے ۔
[عن ابْن سيرين قال: أرْسلت امْرأةٌ إلى رجلٍ فزوّجتْه نفْسها ليحلّها لزوْجها، فأمره عمر: أنْ يقيم عليْها ولا يطلّقها، وأوْعده بعاقبةٍ إنْ طلّقها]
معلوم ہوا کہ انہوں نے اس نکاح کو منعقد شمار کیا ۔ واللہ اعلم [1]
تبصرہ
اس روایت کا ترجمہ بھی مولانا موصوف نے پیش نہیں کیا۔ پہلے اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمالیں ۔
ابن سیرین رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ ایک عورت نے ایک مرد سے اس شرط کے ساتھ نکاح کیا کہ وہ اسے پہلے شوہر کے لیے حلال کردے(چنانچہ اس نے اس سے نکاح کرلیا، سیدنا عمر کو معلوم ہوا تو) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس مرد کو حکم دیا کہ وہ اس عورت کو اپنے پاس ہی رکھے اور اسے طلاق نہ دے بلکہ کہا : اگر اس نے طلاق دی تو مستوجب سزا ہوگا۔ اس سے بقول مولانا عثمانی صاحب معلوم ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک نکاح حلالہ سے نکاح منعقد ہوجاتاہے۔
حالانکہ ابن سیرین ، جو سیدنا عمر کے دور کا یہ واقعہ بیان کررہے ہیں ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بالکل آخری دور میں پیدا ہوئے ، وہ سیدنا عمر کے دور خلافت میں 5،6 سال کے بچے ہوں گے ، وہ
[1] درس ترمذی 3/398۔401۔ از مولانا تقی عثمانی کراچی