کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 91
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کی اہمیت اور اس کی بے بنیاد تاویل
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث جو پہلے پوری بیان ہوچکی ہے ،نہایت اہم ہے اس میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے اپنے سمیت تمام صحابہ کا یہ موقف بیان فرما رہے ہیں کہ ہم نکاح حلالہ کو زناکاری سمجھتے تھے۔ ہمارے نزدیک اس سے نکاح حلالہ کا حرام ہونا ثابت ہوتاہے نہ کہ انعقاد نکاح کا لیکن اس کے برعکس مولانا تقی عثمانی مسند حدیث پر بیٹھ کر فرمارہے ہیں کہ اس سے عدم انعقاد ثابت نہیں ہوتا۔ گویا بہ الفاظ دیگر جواز نکاح ثابت ہوتا ہے۔ہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر کے کن الفاظ سے انہوں نے یہ مطلب اخذ کرکے اپنی حنفی فقہ ان کے سرمنڈھ دی ہے، اس کی وضاحت فرمائیں ۔
اپنی بات کو مؤکد کرنے کے لیے آگے انہوں نے فرمایا ہے :
’’ جس کی تاکید اس سے بھی ہوتی ہے کہ سیدنا ابن عمر نے اس معاملے میں زوجین کو تفریق کا کوئی حکم نہیں دیا۔‘‘
لیکن ہمارا یہاں بھی یہی سوال ہے کہ مذکورہ روایت کے کن الفاظ سے آپ نے یہ تأثر لے کر اس سے اپنے موقف کی تائید کشیدکی ہے۔ روایت میں تو سرے سے اس قسم کے قطعاً کوئی الفاظ ہی نہیں ہیں کہ سیدنا ابن عمر نے تفریق کا کوئی حکم نہیں دیاتھاس میں تفریق یا عدم تفریق کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے ،اس سے عدم تفریق کاتأثر لینا کس طرح درست ہوسکتاہے؟
اس کو ایک مثال سے اس طرح سمجھا جاسکتاہے۔ ایک سائل ایک مفتی صاحب سے پوچھتاہے: میں نے فلاں طریقے سے ایک عورت سے نکاح کیا ہے ، کیا یہ نکاح صحیح ہے؟ مفتی صاحب فرماتے ہیں : یہ تو زنا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس کو زنا سمجھا جاتاتھا۔
فرمایئے! کیا اس جواب سے یہ مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے کہ زنا کے ساتھ اس طریق نکاح کی تشبیہ صرف حرمت میں ہے، عدم انعقاد میں نہیں ۔ مفتی صاحب کے قول سے اس کا زنا ہونا تو واضح ہے لیکن اس سے نکاح کا انعقاد ثابت ہوجاتاہے۔ جبکہ مفتی صاحب نے نکاح کے منعقد ہونے یا نہ ہونے کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا، اسے صرف زنا قرار دیا۔ کیا زنا قرار دینے کے باوجود اس سے انعقاد نکاح کا اثبات کیا جاسکتاہے؟ یا یہ فتوی زنا اور عدم انعقاد نکاح کے بارے میں بالکل واضح ہے،کیونکہ زنا قرار دینے کے بعد مزید کسی بات کی